لہو کی لکیر
سعدیہ قریشی
آج جب یہ کالم لکھا جارہا ہے تو تاریخ ہے چھ ستمبر 2018۔ آج سے 58 سال پیشتر چھ ستمبر 1965ء آیا تھا اور یہ ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا تھا۔ افواج پاکستان، پاکستان کے عام افراد، بزرگ، بچے، عورتیں، مرد سب ایک ہو کر اس وطن کی حفاظت کے جذبے سے سرشار اپنے اپنے ذاتی مفادات اور ضرورتوں کی سطح سے بلند ہو کر صرف اس وطن کے لیے سوچنے لگے۔ ایک ہو گئے، محاذ پر جوانوں اور فوجی افسروں نے لہو گرما دینے والی قربانیاں دی تھیں۔ اپنی قربانیوں کی یاد تازہ کرتی، یہ کتاب میرے ہاتھ میں ہے۔ جنگ ستمبر کی یادیں اور ان یادوں کو لفظوں میں پرونے والے پاکستان کے ممتاز صحافی الطاف حسن قریشی ہیں۔ کتاب اگرچہ میں نے پہلے بھی پڑھ رکھی ہے لیکن گزشتہ روز اپنی لائبریری سے دوبارہ پڑھنے کو اٹھالی اور ان دنوں چونکہ قوم پھر سے اسی ایک یاد کو منا رہی ہے۔ شہداء کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے تو ایسی فضا میں جب چیزیں۔ ریلیوینٹ ہوں تو ان کی اثر پذیری اور معنویت اور بھی زیادہ آشکار ہوتی ہے۔ سو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کتاب سے کچھ اقتباسات قارئین کی نذر کئے جائیں۔ یہ اقتباسات کچھ ٹکڑوں کی صورت میں ہیں۔ جن سے ایک تصویر بنتی ہے۔ ستمبر 1965ء کی کہ کیا ماحول تھا، کیا جذبہ تھا۔ محاذ پر جنگ لڑتا ہوا سپاہی ہو یا کھیتوں میں کام کرتا ہوا دہقان، جنگ کی حکمت عملی طے کرتا ہوا جرنیل ہو یا پھر ہسپتال میں زخمی فوجیوں کی مرحم پٹی پر مامور ایک نرس۔ کوئی پڑھا لکھا شہری ہو یا اجڈ دیہاتی، سب کے سب ایک ہی جذبے سے سرشار تھے اور وہ یہ کہ وطن کے تقدس اور اس کی حفاظت پر آنچ نہیں آنے دینی۔ کتاب سے پہلا اقتباس میں الطاف حسن قریشی صاحب کی ذاتی زندگی کی ایک جھلک سے شروع کروں گی۔ اس باب کا نام ہے ’’پہلا دھماکہ‘‘۔ چھ ستمبر 1965ء کا دن ہے۔ دشمن پاکستان پر حملہ کر چکا ہے۔ اب پاکستانیوں کے جذبات اور احساسات اس وقت اپنی فوج اور اپنے ملک پاکستان کے لیے کیا تھے۔ اس اقتباس میں پڑھیے۔ ’’ہماری گاڑی گورنمنٹ کالج کے سامنے رک گئی۔ لڑکوں کا بے پناہ ہجوم تھا شاید انہیں چھٹی ہو گئی تھی۔ طلبہ جوش سے چلنے پڑتے تھے۔ ان کے چہروں سے عزم و اطمینان ٹپک رہا تھا۔ وہ اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ وہ بڑی جلدی میں تھے جیسے انہیں محاذ جنگ پکار رہا ہو۔‘‘ ٭٭٭٭٭ ’’چچا ابھی میرے ابا کے ساتھی آئے تھے، انہوں نے بتایا میرے ابا شہید ہو گئے ہیں۔ میرے منہ سے بے اختیار انا للہ وانا الیہ راجعون نکلا۔ آمنہ اپنے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گم سم بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ پڑے ۔ بھابھی! میرا دل کہتا ہے یہ اطلاع غلط ہے۔ نہیں بھیا ایسا نہ کہو کیا تم مجھ سے حبیب کی شہادت کی پونجی بھی لوٹ لینا چاہتے ہو۔ میرے پاس اس کے سوا کیا رہا ہے۔ اس کی رندھی آواز میں بلا کا اعتماد تھا۔‘‘ ٭٭٭٭٭ ہم سے پہلے وہاں ہزاروں نوجوان جمع تھے جن میں زیادہ تر طلبہ تھے۔ وہ اپنی فوج کا ہاتھ بٹانا چاہتے تھے اور دشمن کی گولیاں اپنے سینے پر روکنے کے لیے مضطرب تھے۔ فوج کے جوانوں نے کئی بار درخواست کی۔ تم واپس چلے جائو، دشمن سرزمین لاہور میں اپنے ناپاک قدم بھی نہیں رکھ سکے گا۔ طلبہ واپس جانے کو تیار نہ تھے۔ ایک نوجوان نے آنسوئوں کی زبان میں کہا۔ مجاہدو ہمیں واپس جانے کے لیے نہ کہو۔ ہم تمہیں پانی پلائیں گے۔ تمہارے دست و بازو بنیں گے اور ضرورت پڑی تو دشمن کے ٹینکوں کے نیچے لیٹ جائیں گے۔‘‘ ’’صبح ساڑھے نو بجے ہیں۔ میجر عزیز بھٹی دوربین لے کر دشمن کا مشاہدہ کرنے ہی والے ہیں کہ ٹھوس فولاد کا گولہ ان کا سینہ چیرتا ہوا دائیں پھیپھڑے سے پار ہو جاتا ہے۔ وہ منہ کے بل گرتے ہیں۔ خون کی دیوار مزید مستحکم ہوگئی ہے۔ جواں مردی کو ایک نیا مفہوم عطا ہوا ہے۔ تاریخ عزیمت میں ایک زریں باب کھل گیا۔ عزیز بھٹی کی شہادت کی اطلاع بٹالین ہیڈکوارٹر پہنچی تو بٹالین کمانڈر نے بریگیڈیئر محمد اصغر کو فون کیا اور میجر عزیز بھٹی ک شہادت کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ میں ان کے لیے نشان حیدر کی سفارش کر رہا ہوں۔ دوران جنگ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ان کے لیے نشان حیدر کا اعلان کیا۔‘‘ (باب لاہور کا محاذ) 374 صفحات پر مشتمل کتاب قاری کو جنگ ستمبر سن 1965 ء کے حوالے سے یادوں کے ایسے سفر پر لے جاتی ہے کہ قاری خود کو کبھی معرکہ باٹا پور کا حصہ سمجھتا ہے تو کبھی معرکہ کھیم کرن میں پاکستانی جوانوں کی بہادری اور وطن پر جان نثاری کے روح گرما دینے والے واقعات میں شریک ہوتا ہے۔ ایک بہت دلچسپ باب ’’بھارت کا دشمن نمبر 3‘‘ ہے۔ یہ باب ریڈیو براڈ کاسٹر شکیل احمد کے نام ہے۔ شکیل احمد اپنے مخصوص پرجوش اور گھمبیر لہجے میں جنگ کے دوران جس انداز میں خبریں پڑھا کرتے تھے۔ اس سے ایک جانب توپاکستانیوں کو نیا حوصلہ ملتا۔ جنگ کے سترہ دن، ہراساں دلوں کو وہ ایک نئی توانائی اور جذبہ عطا کرتے۔ دوسری طرف ان کا جذبہ ایمانی سے سرشار پرجوش انداز میں یہ کہنا کہ ’’انشاء اللہ فتح ہماری ہوگی۔‘‘ دشمن کے دلوں میں ایک خوف اور سہم کی فضا قائم کردیتا۔ یہ دس ستمبر ہے۔ سیالکوٹ سے چند میل کے فاصلے پر انتہائی خون ریز جنگ جاری ہے۔ بھارت سیالکوٹ کے راستے وزیر آباد پہنچنے کے عزائم رکھتا ہے۔ اس نازک مرحلے پر ریڈیوپاکستان سے خبریں نشر ہوتی ہیں سیالکوٹ کی خبریں سننے کے لیے ہر شخص مضطرب ہے۔ شکیل احمد خبریں پڑھتا ہے۔ اس کے لہجے میں بے پناہ عزم ہے۔ اس کی آواز سے آگ لپک رہی ہے۔ وہ خبریں یوں پڑھتا جارہا ہے جیسے پاکستانی فوج دشمن کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہو۔ وہ رکتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے دشمن کے ٹینک منجمند ہو گئے ہوں۔ حالات کی سنگینی کے باوجود اب لوگ عزم و یقین کے جذبے سے سرشار دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ جنگ کا نقشہ یکسر بدل گیا ہو۔ اسی شکیل احمد کو بھارت نے ایوب، بھٹو کے بعد تیسرے نمبر پر دشمن نمبر تین قرار دیا۔ کیونکہ اس کی آواز کا عزم اور یقین خود دشمن کے دلوں میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کر دیتا۔ جنگ ستمبر کے حوالے سے جن یادوں کا احاطہ الطاف حسن قریشی نے اپنی کتاب میں کیا۔ وہ ان یادوں کو اکٹھا کرنے کے لیے خود ہر مقام تک پہنچے۔ محاذ جنگ پر گئے۔ اعلیٰ افسروں، جوانوں سے ملے، حقیقی معلومات اکٹھی کرنے کے لیے وہ چونڈہ، کھیم کرن، چھمب، جوڑیاں کے محاذ پر گئے۔ وہاں جا کر اس عزم یقین، جذبہ ایمانی کا مشاہدہ کیا جس سے ہمارے فوجی جوان اور آفیسر سرشار تھے۔ اس حوالے سے لکھے گئے ان کے مضامین اس وقت شائع ہوتے رہے مگر یہ ایک قابل قدر کاوش ہے کہ ان کو اس کتاب میں یکجا کردیا گیا تاکہ ہم جیسے لوگ بھی جنہوں نے اس وقت کا خود مشاہدہ نہیں کیا وہ بھی ان تحریروںکے ذریعے پاکستان کا وہ چہرہ دیکھ سکیں جب وطن کی پکار پر ہر اہل وطن جاگ اٹھا تھا۔ وردیوں والے محاذ پر لہو کی لکیر کھینچ کر اس وطن کی حفاظت کر رہے تھے تو اہل وطن ان کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے تھے۔