2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

ٓٓکیا آئین کا کوئی ’’ بنیادی ڈھانچہ‘‘ہے؟

آصف محمود
12-10-2024

آئین کے بنیادی ڈھانچے یعنیBasic Structure کی بہت بات کی جاتی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ پارلیمان آئین کے اس بنیادی ڈھانچے کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی اور اگر کرے گی تو سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار ہو گاکہ وہ اس آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے دے۔سوال یہ ہے کہ اس ڈاکٹرین کی حقیقت کیا ہے ؟ سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے۔آئین پاکستان میں اس حوالے سے چند چیزیں بہت اہم ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 1۔ پہلی بات یہ ہے کہ پورے آئین میں بنیادی ڈھانچے یعنیBasic Structure کی کوئی بات نہیں ملتی۔ آئین نے ایسا کوئی تصور نہیں دیا جس کی روشنی میں ہم کہہ سکیں کہ آئین پاکستان کے فلاں فلاں آرٹیکل کی حیثیت عمومی ہے اور ان میں پارلیمان تبدیلی کر سکتی ہے اور فلاں فلاں کی حیثیت بنیادی ڈھانچے یعنیBasic Structure کی ہے اور پارلیمان کو ان میں تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔کم از کم آئین پاکستان کی حد تک یہ تصور اجنبی ہے۔ایسی کوئی فہرست آئین میں موجود نہیں ہے ۔ نہ ہی آئین ایسی کسی تقسیم کا قائل ہے ۔ 2۔ آئین کے آرٹیکل238 میں لکھا ہے کہ پارلیمان آئین میں ترمیم کر سکتی ہے مگر اس کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ یہ ترمیم دو تہائی سے کی جائے اور دوسری شرط یہ ہے کہ ترمیم کا تعلق اگر کسی صوبے کی حدود میں ترمیم سے ہے تو متعلقہ صوبے کی اسمبلی جب تک دو تہائی اکثریت سے اس ترمیم کی تائید نہیں کرے گی تب تک وہ ترمیم نہیں ہو سکتی۔اس کے علاوہ کوئی ایسی بات آئین میں موجود نہیں ہے جو پارلیمان کے آئین سازی کے حق کو محدودکر ے۔ 3۔ آئین کے آرٹیکل 239 کی ذیلی دفعہ 5میں لکھا ہے کہ جب پارلیمان آئین میں کوئی ترمیم کرے گی تو اسے کسی بھی عدالت میں ، کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور کوئی بھی جواز بنا کر ا س پر اعتراض نہیں کیا جاسکے گا۔ 4۔ آئین میں اس وضاحت کے ساتھ ہی ایک اور چیز بھی طے کی گئی۔ آرٹیکل 239 کی ذیلی دفعہ 6 میں لکھا ہے کہ کسی بھی قسم کے شک کو دور کرنے کے لیے یہ مزید وضاحت کی جاتی ہے کہ دستور میں ترمیم کرنے کے پارلیمان کے حق پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ آئین کے ان دو آرٹیکلز کے بعد ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین کا وہ بنیادی ڈھانچہ کہاں ہے ، جس کا ہمارے ہاں بہت شور مچایا جاتا ہے؟ پاکستان میں یہ بات سپریم کورٹ کے 2015 کے ایک فیصلے میں کہی گئی ہے اور یہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے مستعار فیصلہ ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ کہنا تھا کہ آئین میں یہ کہنے کے باجود کہ آئینی ترمیم کسی بھی بنیاد پر کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی ، اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔آئین میں ممانعت ہونے کے باوجود ہم سن سکتے ہیں اور ہمیں یہ بھی اختیار ہے کہ ہم کسی بھی آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے دیں۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ کوئی آئینی ترمیم کس حد تک آئینی ہے اسے عدالت دیکھ سکتی ہے۔ یعنی بے شک آئین کہتا رہے کہ پارلیمان کے آئین میں ترمیم کرنے کے حق پر کوئی پابندی نہیں، ہم چاہیں تو یہ پابندی لگا سکتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ججوں کی تعیناتی کے معاملے پر پارلیمان کے اختیار کو محدود کرنے کا فیصلہ تو دے دیا گیالیکن عدالت نے یہ نہیں بتایا کہ آئین کے وہ کون کون سے بنیادی خصائص ہیں جنہیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور کن کن کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ یعنی وہ بنیادی ڈھانچہ کہاں ہے ، کس باب میں اور آئین کے کس آرٹیکل میں ہے جس کا تحفظ کرنا مقصود ہے۔ پاکستان میں چونکہ پارلیمان بہت کمزور رہی ہے اور اس کی مجال نہیں رہی کہ وہ عدالتی تجاوزات پر بات کر سکے اس لیے یہ سوال آج تک زیر بحث نہیں آ سکے کہ کیا سپریم کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تشریح کے نام پر آئین کے آرٹیکل 239 کی ذیلی دفعہ 5 اور 6 کے برعکس فیصلہ دے دیتی؟ کیا یہ آئین کو ری رائٹ کرنے کے برابر نہیں تھا؟ کیا یہ منطق درست ہے کہ پارلیمان دو تہائی اکثریت سے تہتر کے آئین میں جو چیزشامل کرے اور کسی ممکنہ شک کے خاتمے کے لیے ایک بار نہیں بلکہ دو مرتبہ شامل کرے ، اسے چند جج صاحبان بیٹھ کر منسوخ کر دیں؟ یاد رہے کہ اسی فیصلے میں خود جناب چیف جسٹس ناصر الملک صاحب نے کہا کہ پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کی تھیوری Shaky ہے۔ یعنی اس کی ’’ کانپیں ٹانگ رہی ہیں‘‘۔ اس کے برعکس اگر ہم بنگلہ دیش کے آئین کو دیکھیں تو وہاں کے آئین میں یہ بات باقاعدہ طور پر موجود ہے کہ فلاں فلاں چیزوں کا تعلق آئین کے بنیادی ڈھانچے سے ہے اور انہیں کوئی پارلیمان تبدیل نہیں کر سکتی۔ بنگلہ دیش میں 15 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 7-B کا اضافہ کیا گیا اور اس میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔پاکستان کے آئین میں ایسی کوئی بات نہیں۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ایسی بات پاکستان کے آئین میں ہونی چاہیے تو اس کا راستہ بذریعہ پارلیمان ہے ، بذریعہ عدالت نہیں۔ آئین بنانا ، اس میں ترمیم کرنا، کمی بیشی کرنا یہ منتخب پارلیمان کا کام ہے ، غیر منتخب ججز کا نہیں ۔ججز کا کام آئین پر عمل کرنا اور اس کی تشریح کرنا ہے۔ تشریح کا دائر کار محدود تر ہوتا ہے۔ تشریح کے نام پر یہ نہیں ہو سکتا کہ آئین کی واضح شق کو عضو معطل بنا دیا جائے۔ آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے جو تشریح کی گئی تھی اسے سپریم کورٹ نے حال ہی میں اسی بنیاد پر کالعدم قرار دیا ہے ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف ہماری عدالت نظریہ ضرورت متعارف کرا لیتی ہے ، اس کے جی میں آئے تو یہ غیر منتخب آدمی کو یہ حق بھی دے دیتی ہے کہ وہ تین سال تک آئین میں اپنی مرضی سے ترمیم کرتا پھرے۔ اس وقت نہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ یاد آتا ہے نہ ہی عدالتی آزادی کا آفاقی اصول مجروح ہوتا ہے لیکن جب پارلیمان کوئی ترمیم کرتی ہے تو وہ چیلنج بھی ہو جاتی ، اسے کالعدم بھی قرار دے دیاجاتا ہے اور عدالتی آزادی کا بنیادی ڈھانچہ بھی دہائی دینے لگتا ہے۔ آئینی ترامیم کا طریقہ کار اگر ناقص بھی ہو تو اس کا حل ، پارلیمان اور جمہوریت میں سے ہی تلاش کیا جاتا ہے۔ پہلے بھی عجلت میں ترمیم ہونے لگی تو پارلیمان کے اندر سے مولانا فضل الرحمن کی شکل میں مزاحمت ہوئی۔ یہ حساسیت پارلیمان سے ہی آنی چاہیے کہ یہ اسی کا استحقاق ہے۔ آئین سازی کا عمل بہر حال پارلیمان سے جڑا ہے ،یہ عدالت کا استحقاق نہیں ہے۔