ٹیکنالوجی کلچر کی اہمیت
نعیم قاسم
کوئی قوم کتنی ہی بڑی تاریخی میراث کی وارث کیوں نہ ہو! اسکی ماضی کی روایات کیسی ہی شاندار اور قابل فخرکیوں نہ ہوں، لیکن آج اگر وہ ٹیکنالوجی میں پسماندہ ہے تو اس کی کچھ حیثیت نہیں ۔ آج ٹیکنالوجی میں بالادست ممالک اپنی فنی مہارت، جدت و اختراع اور ہنر مندی کی بدولت کسی بھی ملک کو اپنا دست نگر بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ٹیکنالوجی سے محروم ممالک تلخ معاشی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے جلد اپنی خود مختاری کو تیاگ دیتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کے سامنے دوزانو ہو جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کتنی بڑی معاشی طاقت ہے اس کا اندازہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، جاپان، چین اور جنوبی کوریا کی معاشی ترقی سے لگایا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے صنعتی انقلاب کی بدولت برطانیہ ایک بڑی سامراجی سلطنت بن گیا ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹیکنالوجی کی بدولت جاپان، جرمنی، ویت نام اور جنوبی کوریا نے معاشی استحکام حاصل کیا ۔سرد جنگ میں برترٹیکنالوجی کی بدولت امریکہ نے کمیونزم کو ناکام بنا کر سوویت یونین کو بکھرنے پر مجبور کر دیا تاہم ڈینگ زیاؤ پنگ کی بصیرت اور دور اندیشی نے چین کو مغربی ممالک کے صنعتکاروں کے لیے کھول دیا۔ پہلے چین امریکی اور مغربی ممالک کی ٹیکنالوجی کو کاپی کر کے معاشی مسائل سے نپٹنے میں کامیاب ہوا پھر اپنی تخلیق کردہ ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت بن گیا ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے ہر ملک میں چائنہ کی مصنوعات کا ڈھیر لگا ہوا ہے اور اس کا توازن تجارت ایک ہزار ارب ڈالرز سرپلس ہے۔ وہ چین جو 1948 میں آزاد ہوا تو اس کے پاس پچاس ملین ڈالرز کے فارن ریزروز تھے اور پاکستان کے پاس پچپن ملین ڈالرز کے زر مبادلہ کے ذخائر تھے۔ آج چین کے زرمبادلہ کے ذخائر چار ہزار بلین ڈالرز ہیں اور ہمارے پاس مانگے تانگے کے دس بلین ڈالرز ہیں اور دنیا کے 130 بلین ڈالرز کے مقروض ہیں اور چین کے بھی ہم 35 ارب ڈالرز کے مقروض ہیں 1992 میں ہندوستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر تھے ہندوستان نے سونا گروی رکھ کر من موہن سنگھ کی اقتصادی اصلاحات پر عمل کیا تو آج وہ دنیا کی چھٹی بڑ ی اقتصادی قوت بن چکا ہے۔ ہم بس یہی باتیں کر کے دل خوش کرتے رہتے ہیں کہ جنوبی کوریا نے ہمارے دوسرے پانچ سالہ پروگرام پر عمل کر کے معاشی ترقی کی ہے اور اب یہ مضحکہ خیز دعویٰ کہ منموہن سنگھ جیسے عالمی حیثیت کے ماہر معاشیات نے نواز شریف کی اقتصادی اصلاحات پر عمل کر کے ہندوستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا ہے۔ کوئی یہ بھی تو واضح کرے کہ ہندوستان میں مضبوط جمہوریت اور من موہن سنگھ جیسے لیڈروں کی کرپشن نہ کرنے پرمعاشی استحکام آیا ہے۔ ہمارے ہاں نواز شریف کی زرمبادلہ کی آزادانہ نقل وحمل کی اجازت سے ہماری کرپٹ ایلیٹ نے اربوں ڈالرز کی منی لانڈرنگ کر کے پوری دنیا میں جائیدادیں اور بنک بیلنس بنا کر پاکستان اور پاکستانی عوام کو کنگلا کر دیا ہے ۔ گزشتہ صدی سے لیکر آج تک وہی ممالک معاشی دیوتا ہیں جنہوں نے اپنی مؤثر ٹیکنالوجی کی بدولت ایسی اشیاء و خدمات تیار کی ہیں جو دنیا کے ہر ملک میں طلب رکھتی ہیں۔ ان ممالک کی مصنوعات کا معیار بہتر ہونے کی وجہ سے برآمدات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور ان ممالک کو زرمبادلہ میں اربوں ڈالرز منافع جات حاصل ہو رہے ہیں ۔ یہ ممالک اپنے منافع جات کے بڑے حصے کو سائنسی تحقیق پر خرچ کرتے ہیں تاکہ بہتر سے بہتر ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی منڈیوں میں مسابقت قائم رکھیں۔ تیسرا یہ ممالک اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات میں بھی نہیں الجھے ہوئے کہ وہ ساری کمائی سکیورٹی فورسز پر خرچ کر دیں۔ چین تو ہندوستان، جاپان اور تائیوان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود ان کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے ۔تائیوان کو چین کا حصہ قرار دیتا ہے مگر بزور طاقت اس پر قابض ہونے کی بجائے تجارتی اور ثقافتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے۔ کشمیر کی طرح اس پر چین اور تائیوان کی جنگیں نہیں ہو رہی ہیں۔ ماضی میں سوویت یونین کے پاس جنگی ہتھیار اور ایٹمی ٹیکنالوجی امریکہ کے مقابلے میں تھی مگر سول ٹیکنالوجی میں امریکی برتری نے سوویت یونین کے بکھرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ایٹمی ملک ہونے کے باوجود سویت یونین اقتصادی بحران کا شکار ہو کر ٹوٹ گیا اس سے سبق سیکھ کر چین دوسرے ممالک سے جنگوں میں الجھنے سے کتراتا ہے۔ امریکہ کی منڈیاں چین کی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں ۔چین نے امریکی سیکورٹیز اور بانڈز میں کئی ہزار ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے حالانکہ امریکہ ہر وقت چین کو مشتعل کرنے کے لیے کبھی اس کی برآمدات پر ڈیوٹی بڑھانے کی بات کرتا ہے تو کبھی ہندوستان تائیوان اور جاپان کو چین کے ساتھ جنگوں میں الجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن چینی قیادت کی دور اندیشانہ سوچ و فکر کی وجہ سے چین اپنے معاشی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے ہر دوست اور دشمن ملک کے ساتھ تجارتی روابط قائم رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان نے پرائیویٹ پاور پراجیکٹس لگا کر بتالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت تو حاصل کر لی ہے مگر فرسودہ ٹرانسمیشن لائنز کی وجہ سے بائیس ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی کی ترسیل ممکن ہی نہیں ۔ اسی طرح ہمارے پاس بلوچستان سے سونا، چاندی اور دوسری قیمتی معدنیات نکالنے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کو ان ذخائر کو نکالنے کے لیے حصہ دار بنانا پڑا ہے۔ گوادر پورٹ اور سی پیک پر چین سرمایہ کاری اور اپنے فنی ماہرین نہ فراہم کرتا تو ہم یہ ترقیاتی پراجیکٹس نہیں لگا سکتے تھے۔ ٹیکنالوجی کی ٹریفک یکطرفہ طور پر ترقی یافتہ ممالک سے ترقی پذیر ممالک کی طرف رواں دواں ہے جسکی وجہ سے یہ ممالک ترقی پذیر ممالک کی سستی لیبر اور خام مال استعمال کرکے انہی ممالک کو مہنگی صنعتی اشیاء اور سروسز فراہم کر کے ہمیشہ تجارتی توازن مثبت رکھتے ہیں اور درآمدات زیادہ کرنے پر پاکستان جیسے ممالک کا تجارتی توازن منفی رہتا ہے اور پھر کنزیومر ازم کی وجہ سے بھی ہمارا مالیاتی توازن خسارے میں رہتا ہے ، ہمیں پھر انہی ممالک کے کنسورشیم اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے پڑتے ہیں ۔ ٹیکنالوجی کے نہ ہونے یا پسماندہ ہونے کی وجہ سے غربت کا منحوس چکر پاکستان جیسے ممالک کا مقدر بن جاتا ہے۔نوے فیصد طالب علم پرابلم سالونگ سکلز سے نا آشنا ہیں، ان کے پاس مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق مہارت نہیں ہے پانچ فیصد استثنا ہو سکتا ہے جو اس وقت بھی تھا جب پاکستان میں لوگ ایم اے، بی اے عام سے سرکاری اداروں سے کر کے عملی زندگی میں دھکے کھا کر زمانے کو استاد مان کر زندگی میں کچھ نہ کچھ کامیاب ہو ہی جاتے تھے مگر آج پاکستان کے ناقص اور مہنگے تعلیمی نظام نے نوجوان نسل کو بے عملی، اور بے راہروی کا شکار کر دیا ہے اور ہمارے ماہرین تعلیم ، بیوروکریسی, وفاقی اور صوبائی ایجوکیشن کمیشن اور یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو اپنی تنخواہوں اور مراعات کے علاوہ کسی سے کچھ سروکار نہیں، ستر ستر سال کے بوڑھے اور پرانے آزمودہ کار سفارشوں اور سیاسی تعلقات سے دس دس لاکھ تنخواہوں پر سرکاری یونیورسٹیوں کے پر کشش عہدوں پر قابض ہیں اور نوجوانوں کے لیے یونیورسٹیاں تفریحی مقام بن چکی ہیں اور جو دو فیصد بچے سنجیدہ ہیں ان کی کوشش ہے کہ جس قدر جلدی ممکن ہو یہ ملک چھوڑ دیں لہذا جعلی تعلیم سے کیسے ممکن ہے کہ ہمارے ہاں بھی کوئی طالب علم مارک زکر برگ ایلون ماسک اور علی بابا بن جائے۔