پانی :کتنا ، کہاں اور کب چاہیے؟
ریاض مسن
شاہ جی آبی وسائل اور ان کے پائیدار استعمال کے ماہر ہیں۔ دسمبر کے اختتام میں ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ حلقہ احباب کے ساتھ ایک بالکونی پر بیٹھے دھوپ کے مزے لے رہے تھے۔ سر پر ہیٹ سجارکھی تھی۔ گرے رنگ کا کوٹ ، سفید شرٹ اور سرخ ٹائی کے ساتھ وہ باوقار انداز پر کرسی پر تشریف فرما تھے۔ ان کے سامنے میز پر ایک شیشے کا بڑا پیالہ دھرا تھا جسکی رنگت سرخی مائل ہورہی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ اس میں ضرور چقندر کی متعدد چھوٹی چھوٹی کاشیں ہونگی جو پانی کو اپنے رنگ میں ڈھال رہی تھیں۔ سرکہ اور لیموں پڑا ہوتو یہ کمال کا مشروب بن جاتا ہے۔ میرے اس یقین کی وجہ اصغر صاحب کی موجودگی تھی جو اس کے بڑے رسیا ہیں۔ ایک دفعہ ان کے ہاں ہونے والی ایک ' ضیافت ' میں اس کا آشنا ہوچکا تھا۔ گھر پر کئی بار کوشش کی لیکن وہ مزہ کہاں۔ خیر، میں نے ڈاکٹر صاحب سے سالِ نو کی بات چھیڑی اور ان بہت سی پیشگوئیوں کا ذکر کیا جن کے مطابق پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا ذکر تھا۔ " پانی بہت :کتنا ، کہاں اور کب چاہیے؟" میں سٹپٹا سا گیا ۔ میرے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا کہ کہیں شاہ جی جلال میں تو نہیں آگئے۔ میں نے اصغر صاحب کی طرف دیکھا کہ کیا ماجرا ہے۔ انہوں نے بھی شاہ جی کی بات کی تصدیق کی اور کہا کہ پانی کی قلت ایک من گھڑت کہانی ہے اور یہ کہ اس کا سائنس اور پاکستان کے زمینی حالات سے کوئی تعلق نہیں۔ شاہ جی نے پانی سے بھرے پیالے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی زمینی ساخت اور پانی کی موجودگی کچھ ایسے ہے۔ اس کی مقدار انہوں نے چار سو ملین ایکڑ فٹ بتائی۔ پچھلے سوا سو سال کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ مون سون بارشوں کی مقدار کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے تو ایسے میں پانی کی قلت کا سوال کہاں سے آگیا؟" میرا دھیان پھر اس پیالے کی طرف چلا گیا۔ کن آنکھیوں سے نجیب صاحب کی طرف دیکھا، انہوں نے پرسکون سے انداز میں آنکھیں موند رکھیں تھیں۔ "ایک سو پنتالیس ملین ایکڑ فٹ پانی ہمیں اوسطاً مون سون کی بارشوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اس میں سے پچانوے ملین ایکڑ فٹ نہروں میں چھوڑا جاتا ہے جبکہ اس میں سے بتیس ملین ایکڑ فٹ کھیتوں تک پہنچ پاتا ہے،" اصغر صاحب نے گویا اعداد شمار کی پٹاری کھول دی۔ "انسانی آبادی کے استعمال کیلیے ہمیں زیادہ سے زیادہ سترہ ملین ایکڑ فٹ کی ضرورت ہے۔ اگر دس ملین ایکڑ فٹ پانی انڈسٹریل استعمال کے لیے فرض کرلیا جائے تو ہمارے پاس بائیس ملین فٹ پانی بچ جاتا ہے"۔ میں نے شاہ جی کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہے تھے۔ " کیوںجی ، ثابت ہوگیا کہ پانی بہت ہے۔ اب بتائیں کہ اس کا کیا کرنا ہے؟"۔ میں نے کہا شاہ جی سر دست تو اس پانی کو پینا ہے، میں نے پیالے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ "ضرور، مگر سائنس کے مطابق یا انجنئرنگ کے ؟" شاہ جی کے اس سوال پر نجیب نے زور دار قہقہ لگایا۔ "سائنسی اصول کے مطابق پیالے سے پیا بھی جائے اور یہ خالی بھی نہ ہو"۔ شاہ جی نے نجیب کو داد بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ہم انجئرنگ کی وجہ سے اس حال تک پہنچے ہیں کہ بہتا ت کے باوجود پانی کی قلت کے تذکرے ہورہے ہیں۔ انجینئرنگ نے دریا ئوں کو بانجھ کرکے انکا پانی صحراوں کی طرف ہانک دیا گیاہے ،آبگاہیں خشک ہو گئی ہیں، جنگلات تباہ اور چراگاہیں ویران ہوگئی ہیں۔ سائنس یہ کہتی ہے کہ کاشتکاری صرف سیلابی میدانوں تک محدود رکھی جائے ۔ انکا کہنا تھا کہ غذائی خود کفالت کے لیے صرف گندم ہی نہیں بلکہ دیگر اجناس جیسا کہ مکئی ، باجرہ، دالوں اور آئل سیڈ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ قدرتی جھیلیں جو دریاوں کے دم قد م سے بنتی ہیں تازہ مچھلی فراہم کرتی ہیں جبکہ چراگاہیں مویشی بانی کے لیے ضروری ہیں۔ بہتے دریا تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔ اگر سمندر سے جڑے ہوں تو معیشت کو آسمان کی بلندی تک پہنچادیں۔ "یوں سمجھیں کہ اربوں ڈالر سے بھرے سمندر میں کنٹینر تیر رہے ہیں ، دریاوں میں پانی ہو تو ان کنٹینرز کو ہک لگا کر گھسیٹ آئیں،" اصغر صاحب نے گرہ لگائی۔ "میں نہایت افسوس کے ساتھ یہ تسلیم کرتا ہوں کہ پاکستان صاف پانی کی قلت کا شکار ہوگیا ہے اور اگر ہم عقل کے ناخن نہ لیے تو یہ مسئلہ بحران کی شکل اختیار کرسکتا ہے"۔ ان کا کہنا تھا کہ صحراوں ، جہاں زیر زمین پانی کڑوا ہے ، میں کاشتکاری کی وجہ سے وہاں سیم و تھور کے مسائل پیدا ہوئے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے نہری پانی کی مسلسل دستیابی غیر یقینی ہوتی جارہی ہے۔ کچھ علاقوں میں جہاں زیر زمین پانی اگر دستیاب ہے تو اسے تیزی سے پمپ کیا جا رہا ہے جبکہ اسے ریچارج کرنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔ دریائوں کے نیچے صاف پانی موجود ہے لیکن اس میں شہری اور صنعتی فضلہ چھوڑ کر آلودہ کردیا گیا ہے۔ "شاہ جی ، اب تک یہ واضح ہوا ہے کہ پاکستان میں پانی بہت ہے لیکن صاف پانی کی قلت ہے۔ یہ الجھن کیسے سلجھے گی؟ دیر پا حل تو آپ نے بتا دیا، فوری حل کیا ہے؟"۔ شاہ جی نے توقف کیا تو نجیب صاحب بول پڑے۔ " صاف پانی دریا نیچے باقی رہ گیا ہے۔ سائنسی اصول و قوانین کی روشنی میں اسے پمپ کرکے شہروں کو مہیا کیا جاسکتا ہے بلکہ تیس سے چالیس کلومیٹر کی رینج میںشہری ضروریات کے لیے درکار خوراک کی پیداوار کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دریا بہتے رہیں تو ہی ترقی کے راستے کھلتے ہیں"۔ بات واضح ہوگئی تھی۔ کمی ہے تو صاف پانی کی اور اسکا حل بھی موجود ہے۔ کب، کہاں اور کتنا چاہیے، سائنس ہماری راہنمائی کرسکتی ہے۔