پاکستان کو اصل خطرے کا سامنا
قادر خان یوسف زئی
آج کا معاشرہ ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں میڈیا پر مسلسل الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔ ہر دوسرا شخص، خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی میں ناکامیاں دیکھی ہیں یا معاشرتی ناکامیوں کا سامنا کیا ہے، میڈیا کو ہی استعمال کرکے اسے ہی تمام مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتا نظر آتا ہے۔ دانشوروں اور عامآدمی کی یہ عمومی رائے بنتی جارہی ہے کہ میڈیا صرف جھوٹ اور پروپیگنڈے کا ذریعہ بن چکا ہے، جبکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔میڈیا کا بنیادی مقصد ہمیشہ سے عوام تک معلومات پہنچانا، معاشرتی برائیوں کو اجاگر کرنا، اور حکومت یا کسی طاقتور طبقے کے غلط اقدامات پر سوال اٹھاناتھا۔ اگر ہم غور کریں تو میڈیا آج بھی ایک طاقتور اور مثبت ذریعہ ہے جس نے عام آدمی کو آواز دی ہے، خاص طور پر ایسے معاشروں میں جہاں ظلم و ستم اور ناانصافیاں عام ہیں۔سوشل میڈیا کے دور میں خاص طور پر، جہاں ہر شخص کے پاس اپنی رائے کا اظہار کرنے کا پلیٹ فارم موجود ہے، پڑھا لکھا طبقہ اکثر میڈیا کو ناکامیوں اور مسائل کا سبب ٹھہراتا ہے۔ ان کے لئے میڈیا ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جس کے ذریعے معاشرتی ناانصافیاں اور برائیاں مزید ابھر کر سامنے آتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ میڈیا کو موردِ الزام ٹھہرانے سے کیا معاشرتی مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا عدلیہ کے کردار کو محدود کرنے سے ملک میں انصاف کا بول بالا ہو جائے گا؟ نہیں، بلکہ یہ ہمارے معاشرتی نظام کو مزید کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔میڈیا کے خلاف زہر اگلنا ایک آسان کام ہے، مگر اس کی اہمیت اور کردار کو نظرانداز کرنا ایک بڑی غلطی ہوگی۔ یہی وہ ادارہ ہے جو عوامی مسائل کو ارباب اختیار تک پہنچاتا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ بڑا بھیانک ہے آج سوشل میڈیا پر ہر دوسرا شخص اپنی اصل شناخت چھپائے، جعلی نام اور چہرے کے ساتھ آپ کو دنیا کی سب سے گھٹیا گالی دے سکتا ہے، اور جھوٹ کا ایک پہاڑ کھڑا کر سکتا ہے، پھر بھی اس کی کوئی گرفت نہیں ہوتی۔ یہ ہمارے معاشرے کے اندر پھیلتی ہوئی ایسی اخلاقی گراوٹ کی علامت ہے جس کا تعلق محض ان پڑھ یا جاہل لوگوں سے نہیں بلکہ، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، پڑھے لکھے طبقے سے ہے، چاہے ان کی تعداد جاہلوں سے کم ہی کیوں نہیں لیکن ایسے لوگ جو بظاہر تعلیم یافتہ ہیں، لیکن ان کے اخلاق اور رویے ایک بیمار سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ میڈیا ہمیشہ سے معاشرے کا آئینہ رہا ہے۔ جب آپ ٹی وی یا اخبار میں کوئی خبر یا تجزیہ دیکھتے ہیں، تو وہ آپ کو اس دنیا کی خوبیاں اور خامیاں دکھاتا ہے جس میں آپ رہتے ہیں۔ لیکن آج کل، معاشرے کا اصل آئینہ کوئی روایتی میڈیا نہیں بلکہ فیس بک، ٹوئیٹر، یوٹیوب، ٹک ٹاک جیسے متعدد سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم بن چکے ہیں۔ یہاں، لوگ اپنے نام بدل کر، اپنی شناخت چھپا کر، اور اپنی اصلیت کو نقاب میں لپیٹ کر سامنے آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کرنے والے، جھوٹ پھیلانے والے اور فتنہ برپا کرنے والے یہ افراد، دراصل ہمارے معاشرے کے اندر چھپے جھوٹ اور منافقت کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو چہرے بدلنے کے ماہر ہیں۔ کبھی مصلح بن کر سامنے آتے ہیں، کبھی مظلوم بن کر، اور کبھی دانشوروں کا لبادہ اوڑھ کر۔ لیکن ان کی حقیقت وہ زہر ہے جو یہ روزانہ سوشل میڈیا پر پھیلاتے ہیں۔ ان کا ہدف کوئی بھی ہو سکتا ہے،چاہے وہ کوئی عام فرد ہو، کوئی معروف شخصیت ہو، یا کوئی ادارہ۔ ان کے لئے صرف ان کی اپنی انا۔یہ منافقانہ طرز عمل معاشرتی بگاڑ کا ایک بنیادی سبب ہے، اور بدقسمتی سے، اس بگاڑ کا ذریعہ بننے والے لوگ جاہل نہیں ہیں۔ یہ سب تعلیم یافتہ افراد ہیں،وہ لوگ جن سے آپ ایک بہتر اخلاق اور ذمہ داری کی توقع کرتے ہیں، لیکن یہ آپ کو مایوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف جھوٹ بولتے ہیں بلکہ معاشرتی امن اور بھائی چارے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک کو آج اصل خطرہ جاہلوں(ان پڑھ) سے نہیں، بلکہ ان پڑھے لکھے افراد سے ہے جو اپنی تعلیم کا استعمال انسانیت کی بھلائی کے بجائے اس کی تباہی کے لئے کر رہے ہیں۔اس رویے کی وجہ کیا ہے؟ یہ لوگ اپنے علم اور قابلیت کا استعمال کیوں اس انداز میں کرتے ہیں؟ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اخلاقی تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ ہم اپنے بچوں کو کتابی علم تو دے رہے ہیں، لیکن ان کے دلوں میں سچائی، دیانتداری، اور انسانیت کا سبق نہیں ڈال رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیم کو ذاتی فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں، اور سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارم ان کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ بن جاتے ہیں جہاں وہ بغیر کسی خوف کے اپنی گھناؤنی سوچ کو پھیلانے میں آزاد ہیں۔ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں اخلاقیات کو دوبارہ مرکزی حیثیت دینی ہوگی، اور سوشل میڈیا پر ہونے والے گھناؤنے اعمال کے خلاف سخت قوانین متعارف کرانے ہوں گے تاکہ جھوٹ، فتنہ اور گالی گلوچ کا خاتمہ ہو سکے۔پاکستان کو آج جس اصل خطرے کا سامنا ہے، وہ انہی پڑھے لکھے لوگوں سے ہے جو علم رکھتے ہوئے بھی جہالت کی روش پر گامزن ہیں۔ ہمیں ایک ایسے معاشرے کی ضرورت ہے جہاں تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہ ہو، بلکہ ایک بہتر انسان بننا بھی ہو۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہم سچائی، دیانت اور انسانیت کے اصولوں کو اپنے دلوں اور دماغوں میں جگہ دیں اور ان پر عمل کریں۔