پاک افغان مذہبی سفارتکاری
محمد عامر رانا
آئندہ چند ہفتوں میں افغانستان سے اسلامی سکالرز کا ایک وفد پاکستان آنے کی توقع ہے۔ یہ وفد دونوں ممالک کے مابین اعتماد سازی کے اقدامات کی حمائت کے لیے دورہ کر رہا ہے۔ وفد ابتدائی طور پر اپنی توجہ پاکستان کے دینی مدارس پر مرکوز رکھے گا تاہم دونوں ممالک دو طرفہ تعلقات میں جو اعتبار کھو چکے ہیں اسے بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ رواں برس کے وسط میں دونوں ملک افغانستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سولیڈیرٹی کی تشکیل پر رضا مند ہوئے تھے۔ تاہم مذہبی سفارت کاری‘ جو اس معاملے میں انوکھی بات نہیں اور موثر ثابت ہو سکتی ہے‘ اس ایکشن پلان کا حصہ نہیں تھی۔ اس ایکشن پلان کے سات بنیادی اصول ہیں جن میں دونوں طرف بات چیت پر آمادہ عناصر کے خلاف اقدام‘ ریاست مخالف گروہوں اور افراد کو پناہ دینے سے انکار‘ جن نکات پر اتفاق ہو چکا ہے ان پر عملدرآمد ‘ تعاون اور مشترکہ نگرانی کا نظام لائزن آفیسرز کے ذریعے تشکیل دینا۔ ایک دوسرے کی زمین اور فضائی حدود کی خلاف ورزی سے گریز کرنا‘ باہمی اختلافات اور تحفظات کو عوامی سطح پر الزام تراشی کی بجائے تعاون کے نظام کے ذریعے طے کرناشامل ہے۔ ان مقاصد کے حصول کی خاطر چھ ورکنگ گروپ تشکیل دیے گئے جن میں سیاسی و سفارتی معاملات‘ اقتصادی تعلقات‘ پناہ گزین‘ فوجی رابطے‘ انٹیلی جنس کا تبادلہ اور نظرثانی کا نظام شامل ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مذہبی سفارتی رابطوں کا آغاز کوئی نئی بات نہیں ہے۔ خاص طور پر افغانستان گزشتہ چند سالوں کے دوران ان چینلز کو قابل استعمال بنانے کی کوشش کر رہا ہے‘ افغان حکومت ان احکامات یا فتوئوں کو بھی استعمال کرنا چاہتی ہے جو پاکستان کے اسلامی سکالرز کی جانب سے افغان طالبان کے خلاف جاری کئے گئے ہیں۔ جب گزشتہ سال اکتوبر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل کا دورہ کیا تو افغان حکومت نے اس حوالے سے بات چیت کی تھی۔ افغان میڈیا نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ آرمی چیف کی جانب سے یہ وعدہ کیا گیا کہ وہ فتویٰ کا انتظام کریں گے۔ اس بنا پر افغان طالبان کے خلاف فتویٰ دینا کہ افغانستان پاکستان کی طرح ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور مسلم حکمرانوں کے خلاف مسلح مزاحمت کی قانونی طور پر ممانعت کی گئی ہے‘ پاکستانی علماء کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ جنہوں نے ہمیشہ افغانستان میں طالبان کی مزاحمتی تحریک کو سپورٹ کیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ افغان طالبان کی اصل طاقت وہ مذہبی بیانیہ ہے جس میں وہ بیرونی قابض ممالک کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ پاکستانی علماء نے تو ایسا فتویٰ پاکستانی شدت پسند تنظیموں کے خلاف بھی نہیں دیا تھا۔ اس سال کے آغاز میں تمام مکتبہ فکر کے 1800علماء نے متفقہ فتویٰ جاری کیا ’’پیغام پاکستان‘‘ جس میں پاکستان میں دہشت گردی کی مذمت کی گئی۔ پہلی مرتبہ دو ٹوک مذہبی بیان میں جہاد کو واضح کیا گیا اور اسے ریاست کا اختیار قرار دیا گیا اور اسلامی قوانین کی زبردستی اطاعت سے روکا گیا۔ جبکہ دوسری طرف فتویٰ نے کابل کو مایوس کیا چونکہ اس میں افغان طالبان کی مزاحمتی تحریک کی مذمت نہیں کی گئی تھی۔پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لیے افغان حکومت نے دوسرے مسلم ممالک سے سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے ایسا فتویٰ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انڈونیشیا اور سعودی عرب نے مختلف مسلم ممالک کے سکالرز کے درمیان مذہبی سفارتی عمل کے ذریعے اس حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے حامی بھر لی۔ جکارتہ میں افغان وفد افغان طالبان کے خلاف دو ٹوک فتویٰ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ تاہم پاکستان اور انڈونیشیا کے سکالرز نے ملاقات کے اختتام پر محض متفقہ طور پر اعلان جاری کیا کہ طالبان کو افغان حکومت کی امن اور بحالی کی پیشکش کو قبول کر لینا چاہیے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اعلان میں افغان نقطہ نظر کو بھی جگہ دی گئی اسی طرح واضح کیا گیا کہ جنگ اور تشدد کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ اسلام امن کا مذہب ہے۔ یقینی طور پر طالبان اس پیش رفت سے خوش نہیں تھے اور کاوش کو امریکہ اور کابل کی طالبان مزاحمتی تحریک کے خلاف ایک مشترکہ سازش قرار دیا۔جب سعودی عرب نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو افغان طالبان نے درخواست کی‘ کچھ حوالوں سے تنبیہہ کی‘ پاکستانی علماء ایسی کانفرنسز میں شرکت نہ کریں۔ اس دھمکی نے اثر دکھایا اور پاکستان سے صرف اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ریاض میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اس وقت یہ بھی افواہ تھی کہ طالبان کو ان کے میزبانوں کی طرف سے ریاض میں ہونے والے اجلاس میں بھی حصہ لینے کی دعوت دی گئی کہ وہ ان حالات کے بارے میں اپنا کیس پیش کریں کہ کن وجوہات کی بنا پر دوحہ میں انہیں اپنا دفتر بند کرنا پڑا تاہم طالبان نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔ یہی دفتر اب امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت میں لگا ہوا ہے۔ دوسری طرف افغان علماء کا ایک اعلیٰ سطحی وفد جس کی قیادت اعلیٰ امن کونسل کے ارکان نے کی‘ ریاض میں بین الاقوامی علماء کانفرنس میں شرکت کی اور یہ اعلامیہ جاری کرانے میں کامیاب رہا کہ افغان حکومت ایک اسلامی حکومت ہے اس کے عوام مسلمان ہیں‘ ان کا قتل روکا جانا چاہیے تاہم اس اعلان میں واضح طور پر طالبان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ مزید برآں کابل کی طرف سے پاکستان پر بھی یہ زور دیا جا رہا ہے کہ وہ کثیر السفارتی چینلوں کے ذریعے اس قسم کا فتویٰ سامنے لانے کی کوششیں کرے۔ تاہم پاکستان میں افغان علماء کے دورہ کا بظاہر مقصد افغان طالبان کے خلاف کسی فتویٰ کے حصول کی کوشش نہیں ہے اور شاید یہ بھی نہ ہو کہ اسلام آباد میں مختلف اسلامی تعلیمی اداروں کے دورہ کے موقع پر طالبان کے متعلق کوئی بات کی جائے کہ علماء پاکستان کی طرح‘ افغانستان کا آئینی کیس پیش کریں گے کہ افغانستان کا ایک آئین ہے‘ جس میں تمام اسلامی دفعات شامل ہیں‘ اس میں بھی تمام حقوق اور قانونی طریقہ ہے جیسا کہ پاکستان میں ہے۔ دونوں ممالک کے آئین‘ اس طرح کا تقابلی تجزیہ پاکستانی علماء کے دہشت گردی کے خلاف دیے گئے اجتماعی فتویٰ کے ضمن میں دلچسپی کا باعث ہو گا جس میں دوسری چیزوں کے علاوہ آئین کے تقدس پر بات کی گئی ہے‘یہ پاکستانی علماء کے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا کہ عسکریت کے معاملہ پر اور دونوں ملکوں کے دساتیر کے حوالے سے دو مختلف آراء کو بطور جواز پیش کریں جبکہ دونوں ملکوں کے آئین میں مذہبی شقیں قریباً ایک جیسی ہوں۔ روایتی طور پر یہی ایک دلیل ہو سکتی ہے کہ افغان طالبان یہ مزاحمتی تحریک اس لئے جاری رکھے ہوئے ہیں کہ وہاں پر غیر ملکی افواج موجود ہیں۔ افغان علماء کا دورہ پاکستان‘ افغانستان کے لیے اس لحاظ سے بھی اہم ہو سکتا ہے کہ اس دوران ان علماء کو پاکستان کے عوام میں طالبان مخالف جذبات پیدا کرنے اور پاکستانی علماء پر یہ دبائو بڑھانے کا موقع مل سکتا ہے کہ وہ افغانستان میں برسر پیکار طالبان کے بارے میں اپنا موقف واضح کریں۔ پاکستان کو اس دورہ کا یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا میں اضافہ ہو گا اور افغانستان کے حوالے سے بین الاقوامی دبائو کوکم کرنے میں مدد ملے گی۔