پنجاب الیکشن ٹربیونلز پر لاہورہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم
اسلام آباد (خبر نگار ،آن لائن، این این آئی ) پنجاب کے الیکشن ٹربیونلزکے قیام کے معاملے پرسپریم کورٹ نے آٹھ صفحات پر مشتمل متفقہ تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے اور 12جون 2024کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیدیا ،لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا کسی ہائیکورٹ میں حوالہ بھی نہ دیا جائے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل بھی منظور کر لی۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ تنازع جب آئینی اداروں کے مابین ہو تو محتاط رویہ اپنانا چاہیے ، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بطور عدالتی نظیر کسی فورم پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا۔عدالت نے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے درمیان اتفاق رائے ہونے کیوجہ سے فیصلہ کی ضرورت نہیں ،چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کی مشاورت پر تعریف کو ریکارڈ کا حصہ بناتے ہیں،کوئی شک نہیں دونوں نے اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریوں کا احساس کیا ،ہائیکورٹ کو دونوں عہدیداران کے درمیان ملاقات (مشاورت) کا علم ہوتا تو یہ فیصلہ نہ ہوتا،الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ دونوں احترام کے حقدار ہیں،دوران سماعت عہدیداران کے درمیان ملاقات کی صورت میں مشاورت اور اتفاق رائے سے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا ،اٹارنی جنرل نے بھی بامعنی مشاورت کو تسلیم کیا،مشاورت کیلئے الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے خطوط کو معطل کیا گیا ،دوران سماعت الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس کے اتفاق بارے تحریری طور پرآگاہ کیا گیا ،اتفاق رائے سے حل پر ان مقدمہ میں فیصلے کی ضرورت نہیں ۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے اضافی نوٹ میں کہا کہ ایکٹ کا سیکشن 140 الیکشن کمیشن کو ججز پینل طلب کرنے کا اختیار نہیں دیتا ،مقننہ کی اس قانون میں سوچ واضح ہے ،مقننہ نے الیکشن کمیشن کو ججز کا پینل مانگنے اور ان میں سے انتخاب کا اختیار نہیں دیا،الیکشن کمیشن کو ہر جج پر اعتماد کرنا چاہیے ،الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ اور ججز آئینی عہدیدار ہیں ،ہر معاملے میں الیکشن کمیشن اور ججز کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے ،چیف جسٹس ہائیکورٹ اور کمیشن کی مشاورت کا نتیجہ ہمارے سامنے اتفاق کی صورت میں آیا ،امید ہے کہ اب الیکشن کمیشن ٹربیونلز کی تشکیل کیلئے اقدامات کریگا ،امید ہے کہ الیکشن ٹربیونلز قانون کی دی گئی مہلت میں فیصلے ہوں گے ۔جسٹس عقیل عباسی نے بھی جسٹس جمال خان مندوخیل کے اضافی نوٹ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا معاملہ کے اتفاق ہونے کی حق تک کیس نمٹانے سے اتفاق کرتا ہوں،لاہور ہائیکورٹ میں کیس کے میرٹس پر دلائل نہیں دیے گئے ۔ادھر سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب الیکشن ٹربیونلزکیس میں تحریری فیصلے میں شامل اپنے اضافی نوٹ میں جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہاہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل آئین کے آرٹیکل 213کے تحت کی گئی ہے اوروہ اسی آرٹیکل کے تحت اپنے اختیارات کااستعمال کرتاہے ۔ تین صفحات پرمشتمل اضافی نوٹ میں فاضل جج نے مزیدکہاہے کہ آئین کے آرٹیکل 218 تین کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابات کرانے اور اس کومنصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے اقدامات کرسکتاہے اور ٹریبونلزکی تشکیل بھی کرسکتاہے ۔آئین اور ایکٹ کی سیکشن 140اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ الیکشن کمیشن ٹربیونلزکی تقرری کے لیے ججزکے پینل کاچناؤکرے ،آئین بنانے والوں کی منشا یہ تھی کہ ٹربیونلزکی تشکیل کے لیے ججزپینل کواختیارات نہیں دیئے جاسکتے ہیں،ان کویہ اختیارنہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کے ججزکاانتخاب کرکے ٹر بیونلزکے لیے ججزپینل تشکیل دے سکیں۔کمیشن پرہر جج کا اعتمادہوناضروری ہے تاکہ وہ بعدازاں ان سے پوچھ بھی سکیں۔آرٹیکل 213تین کے تحت وہ ٹربیونلزکی تشکیل کے لیے اپنے اختیارات کواستعمال کرسکتاہے ۔ایکٹ 2017کی سیکشن 140میں ٹریبونلزکے کام اور طریقہ کار کاذکرموجودہے ۔انھوں نے مزیدکہاکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ٹربیونلزکی تشکیل کاکام الیکشن کمیشن کاہے مگرمعاملات کومزیدشفاف بنانے کے لیے عدلیہ کوبھی اختیارات دیے گئے ہیں،الیکشن کمیشن کی مشاورت سے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ حاضرسروس کی بطور ٹربیونل جج کے تقرری کرسکتاہے ۔کیونکہ چیف جسٹس کوانتظامی اختیارات حاصل ہوتے ہیں اس لیے وہ کسی بھی جج کوبہترطریقے سے اس کومقررکرسکتے ہیں۔