پنجاب حکومت کا وِیژن
ڈا کٹر طا ہر رضا بخاری
ادارے سرکاری ہوں یا پرائیویٹ ''Result Based Management''کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے خواہاں رہتے، اس کے لیے نت نئے کورسز ڈیزائن کرتے، ورکشاپس کا اہتمام اور لیکچرز وغیرہ کا انعقاد اور مختلف پالیسیز بناتے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ پیشہ وارانہ اخلاقیات ''Professional Ethics'' مورل ویلیوز، سیلف ہیلپ اور ٹائم مینجمنٹ جیسے عنوانات کی ترویج کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر تو ان اہتمامات سے خاطر خواہ فوائد حاصل کر لیتا ہے مگر گورنمنٹ سائیڈ پر ان اقدامات کی اثر آفرینی اور نتیجہ خیزی کی سطح ویسی نہیں۔ موجودہ پنجاب حکومت نے اس ضمن میں موثر حکمت عملی اختیار کی اور اپنے محکموں کی پیداواریت میں اضافے اور استعداد کار بڑھنے کے لیے جامع لائحہ عمل مرتب کیا۔ ہر محکمے کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے ''Key Performance Indicators''یعنی کارکردگی کے بنیادی اشاریئے ترتیب دیئے اور محکموں کو اختیار دیا کہ وہ اپنے سال بھر کے اہداف کا تعین کرتے ہوئے، اپنے ہر تین ماہ کے ٹارگٹس کے حصول کا ایکشن پلان محکمانہ سطح پر طے کریں۔ ان اہداف کا ابتدائی سطح پر محکمہ کے مختلف اٹیچ ڈیپارٹمنٹس اور شعبہ جات تعین کریں اور پھر محکمہ کا ایڈیشنل سیکرٹری شعبہ جات کے انچارج کے ساتھ ایک تحریری ایگریمنٹ کے ذریعہ ان اہداف کے حصول کی یقین دھانی حاصل کرئے۔ پھر ایسے ہی ایڈیشنل سیکرٹری اپنے محکمے کے سیکرٹری کے ساتھ یہ ایگریمنٹ کرے۔ میرے خیال میں ہمارے جیسی''تھرڈ ورلڈ کنٹریز''جہاں دفاتر میں تضیعِ اوقات اور سرکاری وسائل کا ضیاع معمول کا حصّہ ہے، وہاں اس نوعیت کا انتظام سودمند اور افادیت کا حامل ہے۔ بالخصوص ایسے ادارے جو اپنے وسائل ہی سے اپنا بجٹ بناتے اور جملہ اخراجات کو پورا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اوقاف ڈیپارٹمنٹ کی مثال سب سے زیادہ موزو ں ہے۔ اوقاف ایک'' سیلف ریونیوجنریٹو'' آرگنائزیشن ہے، جہاں بجٹ ٹارگٹ کے حصول کو ہمہ وقت پیشِ نظر رکھنے میں ہی اس کی بقا، ادارے کی کامیابی اور ملازمین کی فلاح مضمرہے۔ رواں سال 2024-25ء میں اوقاف کا بجٹ ٹارگٹ3555.590 ملین(3,55,55,90,000روپے) ہے۔ اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر)کے لیے مبلغ53,33,38,500 کروڑ ہدف مقررتھا،الحمد للہ!اس ٹارگٹ کو اوقاف ٹیم، نہ صرف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی،بلکہ اصل ٹارگٹ سے بھی 6.25 فیصد زیادہ کیا۔ اس میں ایڈ منسٹریٹر داتاؒ دربار نے اپنے ہدف سے 37.41 فیصد زیادہ، ایڈ منسٹریٹر لاہور (ایسٹ) نے34.45 فیصد،ایڈ منسٹریٹر لاہور (ویسٹ) نے 8.55 فیصد، ایڈ منسٹریٹر پاکپتن نے 6.32 فیصد،ایڈ منسٹریٹر سرگودھا نے 5.47 فیصد،ایڈ منسٹریٹر ملتان نے 5.29 فیصد اور علماء اکیڈمی نے 81.18 فیصد، اصل ٹارگٹ سے زیادہ آمد ن حاصل کی،جو کہ لائق ِتحسین ہے۔مذکورہ ایڈمنسٹریٹرز صاحبان کے ساتھ اوقاف ہیڈآفس کی ٹیم، بالخصوص فنانس ونگ کی کاوش بھی قابل ذکر ہے، جن کامسلسل''فالواپ'' ان اہداف کونہ صرف حاصل کرنے، بلکہ عبورکرنے کا باعث بنا۔ اس سرخروئی پر ہم اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ شکربجالاتے ہیں۔ امیدواثق زونل ناظمین اوقاف رواں سہ ماہی(اکتوبر-دسمبر) میں بھی نہ صرف اس معیار کو برقرار رکھیں،گے بلکہ اس سے بھی آگے جائیں گے۔ وہ، زون جو اپنے اہداف سے تھوڑا پیچھے رہ گئے، وہ اپنی محنت سے، نہ صرف اسکا ازالہ کریں گے، بلکہ رواں کوارٹر کے ٹارگٹ کو بھی حاصل کرنے کی بھرپورسعی کریں گے،ان کے پاس اپنی فیلڈ پوسٹنگ کو ''Justify''کرنے کا یہ بہترین اور تقریبا آخری موقع ہوگا۔ کوئی بھی پراجیکٹ، منصوبہ بندی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ منصوبہ بندی، ٹائم مینجمنٹ کی پہلی سیڑھی ہے، جس میں آپ طے کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے؟کہاں تک کرنا ہے؟اور کس انداز میں اپنے وسائل بروئے کار لانے ہیں، جب تک آپ اپنی ترجیحات کا تعین نہ کرلیں، اس وقت تک اپنے وسائل کا صحیح استعمال نہیں کرسکتے۔ ترجیحات کا بڑا گہر ا تعلق ہمارے مقاصد، ویژن، اہداف اور ضروریات سے ہے۔ ہمارے ہاں مقاصد اور اہداف کا شعور واضح نہ ہے، اسی لیے ہم اپنی ''Priorities''کا بھی تعین نہیں کر پاتے اور نہ ہی پلاننگ جیسے بنیادی عنصر سے اپنی ورکنگ کو نتیجہ خیز بنانے کوشش کرتے ہیں۔ ہماری عملی زندگی میں ہمیں درپیش امور چار نوعیت کے ہوتے ہیں۔ نمبر ایک،ایسا کام جو فوری بھی ہے اور اہم بھی، ایسے کاموں کو کسی صورت میں موخر نہیں کیا جاسکتا ہے، اگر آپ اس کی بروقت ابتدأ کاری نہ کریں اور اس کے کرنے کا وقت گزر جائے، تو پھر بعد میں بھاگ دوڑ کا کچھ فائدہ نہیں، جیسے فصل کی بروقت بوائی اہم بھی ہے اور فوری بھی، اگر بیج بونے کا وقت گزر گیا تو بعد میں یہ سب کچھ بے وقت کی راگنی ہے۔ایک اہم کام کر رہے تھے بچے کے بیمار ہونے کی اطلاع آئی، اب یہ اہم بھی ہے اور ارجنٹ بھی، بہت ''Important''اسائمنٹ میں مشغول تھے، قریبی عزیز کے جنازے کی اطلاع ملی، سب کچھ چھوڑ کر، اس میں شامل ہونے کے لیے روانہ ہوگئے کہ یہ کام فوری بھی ہے اور اہم بھی۔ اگر اَب نہ کیا تو دوبارہ اس کے کرنے کا موقع میسر نہ ہوسکے گا۔ دوسری قسم اُن کاموں کی ہے جو اہم تو ہیں، مگر فوری نہیں، آپ کی ٹبیل یا آفس غیر ضروری کاغذات سے اَٹ گیا ہے۔ اس کے لیے اگر آج فرصت مل جائے تو بھی درست، بصورت دیگر اس کو کل یا پرسوں بھی کیا جاسکتا ہے۔ آپ ہر چھ ماہ کے بعد اپنا طبی معائنہ کرواتے ہیں، یہ ایک اہم کام ہے، مگر اس میں کوئی ''Urgency''نہیں۔ تیسری قسم ان کاموں کی ہے جو ارجنٹ ہیں،مگر اہم نہیں، جیسے آپ کے فون کی گھنٹی بجی، آپ مطالعہ میں منہمک تھے، اس نامعلوم اور غیر متوقع کال نے آپ کے لیے ایک ''Urgency'' پیدا کردی۔ معلوم اور غیر اہم کال کو آپ ''Unrespond'' کرسکتے ہیں۔ مگر ''Unknown''اور اہم نمبرز سے کال وصول کرنا بعض اوقات ضروری ہوجاتا ہے، جس سے اکثر آپ کا اچھاخاصا وقت ضائع ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ جوتھی قسم ان کاموں کی ہوتی ہے، جو نہ اہم ہوتے ہیں اور نہ ہی ارجنٹ، مثلاًدوستوں کے ساتھ گپ شپ پروگرام، ایسے ہی موبائل پر سوشل اپلیکیشنزکا استعمال وغیرہ۔ بہر حال اہداف کے تعین کے بغیر کسی منزل تک پہنچنا محال ہے۔ اہداف اور زندگی کے مقاصد کا عدم وجود بے چینی، فریسٹریشن اور اضمخلال کا سب سے بڑا سبب ہے، ایسے لوگ اپنے گِرد غیر یقینی بیماری اور بے بنیاد مجبوری کا ایک دائرہ بنالیتے ہیں، وہ آرام پسندی سے نکل کر محنت اور مقابلے کے میدان میں آنے کے خواہاں نہیں ہوتے۔ مقصد کا حصول اور کام میں سرخروئی سب سے بڑا ٹانک ہے۔ اپنے اہداف اور منصوبوں پر غور کیجئے۔ ان کو تحریر کرلیں ان پر گفتگو کر کے سوچ بچار کے بعد، ان کو حتمی شکل دیں اور پھر اپنی نظروں کے سامنے انہیں آویزاں کرلیں، جہاں آپ نے اپنے سینئر ز کو اگر تین ماہ کے بعد رپورٹ پیش کرنی ہے، تو خود آگاہی کے لیے اس کا اہتمام ماہانہ بنیادوں پر کریں، یہ ایکشن پلان اہداف کے حصول میں مددگار ثابت ہوگا۔