2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

پْرامن معاشرے کی تشکیل

سعد الله شاہ
30-09-2024

گزشتہ ہفتہ کافی ہنگامہ خیز اور مختلف النوع مصروفیات اور اسفار سے لبریز رہا۔ معمول کی دفتریت کے علاوہ اس وقت ڈینگی کے تدار ک کے لیے صوبہ بھر کے آئمہ وخطبا کمر بستہ ہیں اور عامۃْ الناس کو اس موذی مرض کے خلاف مستعد رکھنے کے لیے اوقاف و مذہبی امور کے زیر اہتمام ایک موثر کمپَین لانچ ہوچکی ہے، جس کے تحت جمعہ کے اجتماعات اور پنجگانہ نماز کے موقع پر امام و خطیب صاحبان نہایت اختصار سے اس پیغام کی ترسیل کا اہتمام کر لیتے ہیں۔اس ضمن میں راولپنڈی میں خطرات اگرچہ زیادہ ہیں، تاہم متعلقہ صوبائی محکموں اور ڈسٹرکٹ ایڈ منسٹریشن کے اشتراکِ عمل سے حالات پوری طرح کنڑول میں ہیں اور زونل آفس اوقاف راولپنڈی، اس میں پوری طرح سرگرمِ عمل اور استعداد و بساط سے بڑھ کر ڈیوٹی پرفارم کررہا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ منگل کے روز مدرسہ لیڈرشپ کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا بھی اہتمام ہوا، جس کا مقصد بیس ہزار سے زائد دینی مدارس ،ان کے اساتذہ اور لاکھوں کی تعداد میں زیرِ تعلیم طلبہ کو آن بورڈ لینا اور اس آگاہی مہم کا حصّہ بنانا تھا۔ اَلحَمدْالِلّٰہِ!یہ انتہائی کامیاب کوشش تھی، مستزاد یہ کہ پنجاب کے ہیلتھ منسٹر خواجہ سلمان رفیق کی موثر تقریر نے دینی طبقات کے ساتھ اشتراکِ عمل کی راہوں کو اور زیادہ نمایاں اور روشن کردیا۔ سرگودھا میں اسی عنوان پر مشائخ و علماء کا عظیم اجتماع ہوا، جس میں کمشنر سرگودھا اور وزیر زکوۃ و عشر سمیت مقامی عمائدین نے بھر پور شرکت کی۔ یہ پریکٹس گوجرانوالہ سمیت دیگر شہروں میں بھی جاری ہے۔ انہی ایام میں خطّے کی معروف روحانی شخصیت حضرت میراں حسین زنجانیؒ کے سالانہ عرس کی رسمِ چادر پوشی اور افتتاح کی سعادت بھی میسر ہوئی، جس میں علماء و مشائخ کی کثیر تعداد شریک تھی۔ ایک روایت کے مطابق یہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے پیر بھائی ہیں اور آپ سے قبل لاہور میں دین ِ اسلام کی ترویج و تبلیغ کے مشن پر متمکن تھے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کے شیخ ِ طریقت حضرت ابو الفضل الختلی نے آپ کو لاہور کی طرف مراجعت کا حکم فرمایا تو آپ نے اپنے پیر بھائی میراں حسین کی وہاں موجودگی کا تذکرہ کیا، جس کا لامحالہ مقصد یہ ہوگا کہ وہ وہاں پر خدما ت سرانجام دے رہے ہیں، بنا بریں کسی اور خطّے کی ذمہ داری تفویض ہوجائے۔ لیکن آپ کے شیخ نے اصرار فرمایا اور عازمِ لاہور ہونے کا حکم فرمایا، اس سے تبلیغ دین کے حوالے سے صوفیاء کی کمٹمنٹ اور مضبوط وابستگی کے علاوہ صوفیاء کے مرکزی نظام کا بھی اشارہ ملتا ہے، جس کے تحت وہ دنیا کے مختلف خطّوں کو مانیٹر کرتے ہوئے، اپنے تربیت یافتہ مبلغین کی ترسیل کا اہتمام فرماتے۔ اس سے تصوّف کے انسٹیٹیوشن کی درخشاں روایت اور فیوضاتِ عالیہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت داتا صاحبؒ لاہور تشریف فرما ہوئے تو رات ڈھل رہی تھی، علی الصبح دیکھا تو ایک جنازہ برآمد ہوا، جو الشیخ حسین زنجانی ؒ کا تھا۔ بہر حال اس پر بعض محققین نے کافی گرماگرم بحثیں بھی کی ہیں، جس کا یہ مقام نہیں۔ ہمارے محققین کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ میراں حسین زنجانی ؒ، حضرت داتاصاحبؒ سے تقریبا ً سواسو سال بعد کے بزرگ ہیں اور جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ، لاہور میں درگا ہ ِ علی ہجویری پر چلّہ کش ہوئے، تو انہی ایام میں ان دونوں جلیل القدر ہستیوں کی باہم ملاقات و رابطے کے بھی نقوش تذکروں میں درج ہیں۔ بہر حال حضرت میراں حسین زنجانی ؒ شمالی لاہور میں مرجع خلائق اور آپ کا خانوادہ اور زنجانی سادات، آپ کے فیوضات کے امین ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی میں لاہور کے ایک پْرآسائش اور آسودہ ہوٹل میں، انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے زیر اہتمام ایک تقریب بعنوان "پْرامن معاشرے کی تشکیل میں علماء و مذہبی شخصیات کا کردار "کا اہتمام ہوااورمنتظمین مذکورہ عنوان پر مباحثے یعنی "Debate"کے متمنی تھے۔ میری رائے یہی ہے کہ سوسائٹی کو افہا م وتفہیم، مذاکرہ و مکالمہ کی طرف لے کر جانا چاہیے نہ کہ مباحثہ اور مجادلہ کی طرف۔ مَیں نے شرکاء اجلاس اور منتظمین سے بھی درخواست کی کہ خواہ مخواہ مذہبی و دینی طبقات کو معتوب بنا کر دنیا کے آگے نمبر بازی نہ کریں۔ اس وقت معدودے چند گروہوں کے علاوہ مذہبی طبقات کی غالب اکثریت اتحاد ِاْمّت اور بین المسالک یگانگت پر متفق اور مستعد ہے۔ ان کے اس کردار کی تحسین ہونی چاہیے۔ معاشرے میں توڑ پھوڑ دینی طبقات کے سبب نہیں ہے۔ لاہور اور راولپنڈی پر دھاوے علماء و مذہبی شخصیات نہیں بول رہے۔ ہمارا سوشل فیبرک محراب و منبر کی وجہ سے خراب نہیں ہورہا۔ ہماری این جی اوکو ان دو کروڑ چالیس لاکھ بچوں کی فکر کرنی چاہیے، جو سکولوں کا منہ دیکھنے کو ترس رہے ہیں نہ کہ وہ ان تیس لاکھ بچوں کے غم میں مبتلا رہیں، جن کو یہ دینی مدارس مفت تعلیم دہے رہے ہیں، جن کو خطّے میں جدت پسندی اور روشن خیالی کے امین جنرل پرویز مشرف نے دنیا کی سب سے بڑی این جی اوز قرار دیا تھا۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں پیدا گیری کے چکر میں ایسا ماڈرن طبقہ جو از خود گرائمر سکولوں کی پیداوار ہے، جس نے زندگی میں کبھی مدرسے کا منہ نہیں دیکھا ہوتا،وہ اس طرح کے ڈیکوریٹو ہالوں میں مدرسہ ایجوکیشن اور اس کے مضمرات، جیسے موضوعات پر کھانے کی میز کے گرد گفت و شنید کی مجالس آراستہ کر کے، فوٹو سیشن کا اہتمام کرتا اور پھر معاشرے میں اَمن، رواداری اور محبت کا داعی بنتا ہے۔ یہ محبت اور رواداری ان این جی اوز کو کیوں ہضم نہیں ہوتی کہ سانحہ جڑانوالہ کے موقع پر جب چرچ جلنے کا دلخراش واقعہ اور سانحہ رونما ہوا، تو علاقے کے صائب اور معتبر علماء کا وفد جڑانوالہ کے مسیحی مشنریوں کے پاس گیا اور اس حادثے پہ افسوس اور اس کی مذمت کے بعد ان کو پیش کش کی کہ جب تک آپ کی عبادت گاہوں کی بحالی نہیں ہوتی، ہماری مساجد کے دروازے آپ کے لیے کھلے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ان علماء اور دینی طبقات کا بہت بڑا قدم تھا، اس کی تحسین، ترویج اور تشہیر ہونی چاہیے۔ ہم اس روشن پہلو کو نظر انداز کرنے کی کیوں کوشش کرتے ہیں اور ہم اس سانحہ کا سبب کسی متشدّدمذہبی گروہ کو قراردینے پر کیوں مصر ہیں۔ شاید ہماری دکانداری ایسے منفی روّیوں کی تشہیر ہی سے چمکتی ہوگی اور ہم دنیا کو یہ باور کروانا چاہتے ہوں گے کہ یہ خطّہ مذہبی جنونیوں کی زَد میں ہے اور اگر آپ نے ہماری مدد نہ کی تو پاکستان (نعوذ باللہ)پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ میرے خیال میں ہمیں ایسی مہم اور پْراسرار سرگرمیوں کی بجائے مذہبی اورقومی سطح پر ایسے عنوانات اور ایونٹس آراستہ کرنے چاہیئں، جس سے سوسائٹی، نرمی، ٹالرینس، مکالمے اور مذاکرے کی طرف آئے اور ایسا صرف اور صرف سیرت طیبہ اور اسوہء رسول ﷺ کی ترویج کے ذریعے ہی ممکن ہے، جیسا کہ قومی رحمۃ للعالمین و خاتم النبین اتھارٹی نے اسلام آباد میں "سیرت فیسٹیول"کے انعقاد و اہتمام سے کیا، جس کے لیے اس ادارے کے چیئرمین خورشید احمد ندیم، جو کہ مذکورہ "مجلس مباحثہ"میں تشریف فرما تھے ،کو ہدایہء تحسین و تبریک پیش کرچکا ہوں۔