پیر اٹھایا تو آ گیا رکھنا
سعد الله شاہ
کارہائے نمایاں‘ کامیابیاں اور کامرانیاں کسی کے بس میں کہاں ہوتی ہیں۔ اس کے سزاوار لوگ چن لئے جاتے ہیں۔ آپ اسے مقدر سمجھیں یا مقسوم!کچھ نہ کچھ اس میں آپ کی نیت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ اس مٹی میں تھوڑا سا آنکھوں کا نم اور ہاتھوں کی سعی کے علاوہ خون کی گرمی بھی شامل ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو بالکل یوں لگتا ہے کہ آدمی خود کو ثمر بار ہوتے دیکھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے۔ لالے کی حنا بندی خود ہی ہو رہی ہوتی ہے: کوئی نقطے سے لگاتاچلا جاتا ہے فقط دائرے کھینچتا جاتا ہوں میں پرکار کے ساتھ مادہ پرستی کی اس چوہا دوڑ میں سب سرپٹ بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ سرپٹ گھوڑے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور میں نے اسے چوہوں کے لئے لکھا ہے تو یہ موکری ہی ہے۔ خیر اس نفسا نفسی کے دور میں کہ جہاں جہانِ رنگ و بو نے انسان کو مست کر رکھا ہے اور دنیا کی چکا چوند نے اسے چندھیا دیا ہے‘ وہاں کچھ لوگ کار خیر کرنے والے بھی ہیں۔ یعنی خود سے نکل کر سوچنے والے ہیں جہاں میں ڈاکٹر ناصر قریشی کا ذکر کرنے جا رہا ہوں وہیں مجھے فائونٹین ہائوس کے بانی عبدالرشید کے بیٹے ڈاکٹر ہارون رشید بھی یاد آ رہے ہیں جنہوں نے ایک روز مجھے کہا کہ وہ اب خود سے باہر نکل آئے ہیں اور اب لوگوں کے لئے جئیں گے۔ میں نے ان کے خیال کو شعر میں ڈھال دیا تھا جسے انہوں نے فریم کروا کے دیوار پر آویزاں کر دیا: سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہمرکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا ہوا یوں کہ آج صبح کے درس میں ڈاکٹر ناصر قریشی نے مولانا حمید حسین سے کہا کہ آج وہ اس ادارے کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں جو کہ کام کاج کرنے والے ملازمین کے بچوں کے لئے تعمیر ہونے جا رہا ہے۔ شدید دھند اور سردی میں ہم لوگ تعمیر کی جگہ پہنچے۔ یہ مرغزار کالونی کا سی بلاک ہے۔ سارا منظر دھندمیں ڈوبا ہوا تھا۔ وہاں بانڈے صاحب ہمارے منتظر تھے کہ مولانا حمید حسین پہلی اینٹ اساس کے طور پر رکھیں۔ کئی دوستوں نے بھی اس نیک رسم میں حصہ لیا۔ بات کچھ اس طرح ہے کہ ڈاکٹر ناصر قریشی نے اپنے گھر کے اوپر والے حصے کو سکول بنایا ہوا ہے جہاں کالونی میں کام کرنے والے چھوٹے ملازمین اور گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کے بچے پرائمری کی تعلیم مفت حاصل کرتے ہیں۔ یہ ہرگز معمولی بات نہیں کہ فی زمانہ ڈاکٹرز تو اپنے کلینکس کو ٹکسال بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کوئی مشورہ تو کجا سلام بھی بغیر پیسے کے نہیں ہوتا۔ یہ قرآن سے وابستگی اور خوف خدا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی بیگم کے ساتھ مل کر غریب ملازمین کے بچوں کے لئے تعلیم کا در کھولا ہے ڈاکٹر صاحب کی بیٹی بھی اساتذہ میں شامل ہے۔ یہ سب توفیق کی بات ہے۔ سردیوں کے دنوں میں ہمارا درس بھی انہی کے ڈرائنگ روم میں ہوتا ہے۔ اب کے ڈاکٹر صاحب کے بھائی نے انہیں اتنے پیسے دیے ہیں کہ وہ اس کام کو توسیع دینے کے قابل ہوئے ہیں۔ پہلے ہی ڈیڑھ سو کے قریب بچے مفت تعلیم لے رہے ہیں۔ ظاہر ہے اب تعداد کافی بڑھ جائے گی۔ آپ اسے کسی بھی زاویہ سے دیکھیں‘ یہ بہت بڑا کام ہے کسی کا اس طرف دھیان ہی نہیں جاتا کہ بے وسیلہ اور لاچار ملازمین کے پاس تو بچوں کو پڑھانے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ نتیجتاً وہ آوارہ ہو جاتے ہیں‘ منفی سرگرمیوں میں جا پھنستے ہیں‘ زیادہ سے زیادہ وہ کسی ورکشاپ پر ’’چھوٹے‘‘ بن جاتے ہیں یا کم سنی میں محنت اور مشقت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جو بچے سکول میں آ کر پڑھیں گے تو وہ اپنے معاشرے کے لئے اگر مفید نہ بھی ہوئے تو نقصان دہ بھی نہیں ہونگے۔ کچھ پتہ نہیں کہ کسی گدڑی میں لعل چھپا ہو، بچے کو مواقع فراہم ہونگے تو ان کی صلاحیتیں بروئے کار آئیں گی۔ اسے کہتے ہیں کسی کے لیے جینا‘ اپنی زندگی تو سارے ہی جیتے ہیں بلکہ اکثر تو دوسروں کو مار کر جیتے ہیں۔ قربانی اور ایثار تو وہی جانتے ہیں جو اللہ والے ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ راستہ ہی بذات خود منزل ہے: منزلیں ان کا مقدر کہ طلب ہو جن کو بے طلب لوگ تو منظر سے گزر جاتے ہیں مجھے ناصر کاظمی یاد آ گئے: یہ آپ ہیں تو بوجھ ہیں زمین کا زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے ایسی وسعت و کشادگی ہر کسی کو تو ودیعت نہیں ہوتی۔ ہر کسی کی بساط بھی نہیں کہ وہ دوسروں کے مسئلے کو اپنا مسئلہ بنا لے۔ اتفاق کا درس تو اساسی ہے۔ یہ کوئی کوئی سوچتا ہے کہ خرچ اصل میں یہاں ڈیپازٹ ہے۔ وہی جو محبوب خدا نے حضرت عائشہ ؓ سے ایک دن پوچھا کہ جو بکری ذبح کی تھی‘ کیا بانٹ دی۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا ایک دستی بچی ہے باقی تقسیم کر دی۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا بچا وہی ہے جو تقسیم کر دیا گیا۔اللہ کا کہا تو پتھر پر لکیر ہے۔ ہمارے دماغوں میں یہ بات نہیں آئی کہاں اظہار شاہین یاد آئے: میں نے آج اس قدر سخاوت کی آخری شخص لے گیا مجھ کو سب سے اچھی سرمایہ کاری وہ ہے جو تعلیم پر ہو۔ ڈاکٹر ناصر قریشی جیسے لوگ قوم کے خیر خواہ ہیں۔ اصل میں تو یہ کام حکومتوں کے ہیں کہ تعلیم تک نارسائی رکھنے والے غریب بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرے۔ اگر یہ کام کوئی انفرادی سطح پر کرتا ہے تو اسے حرف تحسین پیش کرنا چاہیے ویسے تو ایسے لوگ جو اللہ کی خوشنودی کے لئے یہ کام کرتے ہیں انہیں نہ ستائش کی تمنا ہے نہ صلے کی پروا۔ میں تو اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ایک تو اپنے آپ کو اس جانب آمادہ رکھوں اور دوسرا شاید کہ کسی دل میں اتر جائے میری بات۔ میرے سامنے کی بات ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت جو چند ہزار کے قرضہ حسنہ سے شروع ہوئی تو آج اخوت یونیورسٹی بھی چلا رہی ہے غزالی ٹرسٹ اور الخدمت کی مثالیں بھی ہمارے سامنے کی ہیں۔ ہم نے بھی دھند سے اٹے منظر میں سرد سرد ہاتھوں کو دعا کے لئے اٹھایا مولانا حمید حسین نے دعا کروائی۔ کئی دوست آمین کہنے والے تھے۔ اردگرد اینٹیں بکھری پڑی تھیں اور مستری مزدور کام کے لئے تیار سب نے دعا کے بعد گلاب جامن کھائے اور شیریں دہن ہو کر واپس گھروں کو پلٹے۔ وہی جو کہا جاتا ہے کہ مسلمان کو دونوں سطح پر سوچنا چاہیے۔ ایک تو اس کے انفرادی اعمال میں اور دوسرے اجتماعی اگر وہ ذاتی افعال کو بھی اجتماعی بنا لے تو کیا ہی بات ہے۔ معاشرہ تو فرد سے ہی بنتا ہے۔ وہی کہ ’’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘ فرد کے اس عمل سے یگانگت اور یکجہتی بھی تو پیدا ہوتی ہے اور اسی سوچ سے اجتماعی شعور پیدا ہوتا۔’’موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں‘‘ جو بھی ہے نیک کام کی ابتدا کر دینی چاہیے۔ آگے بڑھنے کے لئے پہلا قدم ضروری ہے اور پہلا قدم نیت پر انحصار کر تا ہے: کسی نے سیکھا ہے نقش پا رکھنا پیر اٹھایا تو آ گیا رکھنا