پیپلز پارٹی کو ہیرو مت بنائیں
عمر قاضی
پیپلز پارٹی اپنے گناہوں اوراپنی غلطیوں کے گرداب میں تیزی سے گم ہو رہی تھی مگر پی ٹی آئی نے سندھ میں حکومت گرانے کی کوشش کرکے اس پھر سے مضبوط کرنا شروع کیا ہے۔ ممکن ہے کہ تحریک انصاف نے یہ سوچا ہو کہ پیپلز پارٹی گرتی ہوئی دیوار ہے اس کو دھکا دیا جائے مگر پی ٹی آئی کی تھنک ٹینک کو اس بات کا علم ہونا چاہئیے کہ ذوالفقار علی بھٹوکے بعد پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ’’سندھ کارڈ‘‘ کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ذوالفقار بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی سندھ میں چار بار اقتدار کے مسند پر بیٹھی ہے۔ اس بار پیپلز پارٹی سندھ میں اقتدار کا پانچواں راؤنڈ پورا کر رہی ہے مگر تھر میں بچے بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ بلاول ہاؤس پھیلتا اور بلند ہوتا جا رہا ہے مگر سندھ غربت کی سردی میں سکڑ رہا ہے۔ سندھ کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک وقت تھا جب سندھ میں بائیں بازو کی کچھ قوت تھی اور قوم پرست بھی سندھ کے حقوق کی صدا بلند کرتے تھے مگر اب کچھ نہیں۔ ساری صدائیں ڈوب گئی ہیں۔ اس دور میں صرف پیپلز پارٹی کی طرف سے ’’جیئے بھٹو‘‘ کے نعرے لگا کر سارا مال ہڑپ کیا جا رہا ہے۔ سندھ میں لوگ مناسب نعم البدل نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کے وڈیروں کو ووٹ دینے کے سلسلے میں مجبور ہیں ورنہ سندھ کے لوگ موجودہ پیپلز پارٹی کو قطعی طور پر پسند نہیں کرتے۔ یہی سبب ہے کہ سندھ میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ آصف زرداری کو احتساب سے بچانے کے لیے کوئی عوامی تحریک چلائے۔ پیپلز پارٹی کو صرف دو کام آتے ہیں۔ ایک ووٹ بٹورنا اور دوسرا کرپشن کرنا۔پیپلز پارٹی کے کرپٹ کردار کے باعث سندھ کے لوگوں میں پیپلز پارٹی کے لیے کوئی بھی نرم گوشہ نہیں ہے۔ مگر سندھ میں جی ایم سید سے لیکر رسول بخش پلیجو تک بہت سارے رہنماؤں کے فکری اور عملی کام کے باعث ایک مخصوص قسم کی قوم پرست کیفیت موجود ہے۔ سندھ میں اس وقت کوئی قوم پرست تحریک متحرک نہیں ہے مگر سندھ کی سیاسی نفسیات میں قوم پرستی کا رجحان موجود ہے ۔ اس رجحان کو پیپلز پارٹی نے اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ پیپلز پارٹی کی وہ کوشش آج بھی جاری ہے۔ آج بھی پیپلز پارٹی قوم پرستی کا کارڈ استعمال کرنے کے بہانے تلاش کر رہی ہے۔ اس بار لاڑکانہ میں جب پیپلز پارٹی کی طرف سے بینظیر بھٹو کی 11ویں برسی منائی جا رہی تھی ؛ اس وقت آصف زرداری کے سر پر جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتاری کی تلوار لٹک رہی تھی۔ اس ماحول میں پیپلز پارٹی کی طرف سے ہمیشہ کی طرح بلاول کو آگے لایا گیا اور اس نے پہلی بار بلوچستان کے ایشو کو اٹھایا۔ حالانکہ بلوچستان میں اس وقت کوئی خاص بات نہیں۔ مگر بلوچستان کا حوالہ دیکر اسٹیبلشمینٹ کو اشارہ دیا گیا کہ اگر آصف زرداری کو گرفتار کیا گیا تو پیپلز پارٹی بلوچستان کا ایشو بھی اٹھا سکتی ہے۔ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بلاول بھٹو کو جذباتی بنا کر پیش کیا گیا مگر اس باراس نے باغی ماں کا باغی بیٹا بننے کا اعلان کیا۔ مگر اس اعلان کا اہلیان سندھ نے نوٹس تک نہیں لیا۔ آصف زرداری ہر دن اپنی گرفتاری کے فکر میں رہتے ہیں۔ ہر آہٹ پر وہ کانپ جاتے ہیں کہ کہیں اس کو گرفتار کرنے کے لیے قانون کے محافظ تو نہیں آئے۔ پیپلز پارٹی کے پاس آصف زرداری کی حمایت میں بات کرنے کے لیے کوئی نکتہ نہیں تھا۔ مگر جب سندھ میں تحریک انصاف کی طرف پیپلز پارٹی کو ہٹانے کی سرگرمی ہوئی تب سے پیپلز پارٹی کو مظلوم قوم پرستی کا جواز حاصل ہو رہا ہے۔پیپلز پارٹی کے کرپٹ وزراء بھی چینلز پر آکر یا پریس کلبوں میں بیٹھ کر سندھ کی مظلومیت کا رونا روتے ہیں۔ اب ان کا موقف ہے کہ اصل بات زرداری کے احتساب کی نہیںہے۔ اصل بات سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانے اور اپنی حکومت کو قائم کرنے کی ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کو مظلوم بننے کا بہانہ مل گیا ہے۔ سندھ میں عام آدمی قوم پرستی کی بات سن کر جذباتی ہوجاتا ہے۔ سندھی میڈیا میں پیپلز پارٹی کی اچھی لابنگ ہے۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی اپنے مخصوص چینلز کو استعمال کرکے کمزور صورت میں موجود قوم پرست جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے میں دیر نہیں کرتی۔ اس وقت سندھ میں نام نہاد شور اٹھایا گیا ہے کہ وفاق کی طرف سے سندھ حکومت پر حملہ ہو رہا ہے ۔ اس لیے ہر باشعور اور غیور سندھی کا فرض ہے کہ وہ سندھ حکومت کو بچانے کے لیے اپنا قومی کردار ادا کرے۔ اس جذباتی غبار میں آصف زرداری کی کرپشن چھپانے کا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ایسے مواقع تلاش کیے ہیں جن سے وہ اپنے مفاد کی سندھی قوم پرستی کو فروغ دے پائے۔ یہی سبب ہے کہ جب بینظیر بھٹو کا قتل ہوا تھا؛ اس وقت سندھ میں جذباتی کیفیت تھی؛ اس ماحول میں اقتدار تک پہنچنے کے لیے آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کیا تھا۔ آصف زرداری کو اقتدار کے علاوہ اور کسی چیز سے دلچسپی نہیں ہے۔ انہیں سندھ اور سندھ کے لوگوں سے برائے نام بھی پیار نہیں۔ مگر وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہیں یا سندھ کی بات کرتے ہیں۔ اس بار جب احتساب کے جال میں پھنس گئے ہیں ؛ اس وقت انہیں باہر نکلنے کے لیے کسی بلیک میلنگ والے ایشو کی ضرورت تھی۔ تحریک انصاف نے جس عجلت کا مظاہرہ کیا اس سے پیپلز پارٹی بھرپور فاعدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اقتدار کا اپنا مخصوص مزاج ہوتا ہے۔ ہر پارٹی زیادہ سے زیادہ پاور حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جب پیپلز پارٹی وفاق میں حکمران تھی اور آصف زرداری ایوان صدر میں موجود تھے۔ اس وقت سندھ میں مکمل طور پر اقتدار ان کی مٹھی میں تھا مگر پھر بھی پنجاب کی حکومت حاصل کرنے کے لیے زرداری صاحب نے پنجاب کی مضبوط اور منتخب حکومت کو ہٹا کر گورنر راج نافذ کیا ۔ یہ عام سی بات ہے۔ اگر مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں سندھ کے گورنر نے کچھ نہیں کیا تو اس کا سبب صرف یہ تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیاں یہ معاہدہ تھا کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی اور اس کے بدلے میں مسلم لیگ ن سندھ میں جائز مداخلت سے اجتناب کرے گی۔ یہی سبب تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں سندھ کے اندر مسلم لیگ ن کے رہنما اور کارکنان چیختے اور چلاتے رہے اور وہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بلاتے رہے مگر میاں نواز شریف نے ان پر ہاتھ نہیں رکھا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر مسلم لیگ ن کے کچھ رہنما تو پیپلز پارٹی میں چلے گئے۔اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیاں زبردست انڈراسٹینڈنگ ہے۔سندھ کے گورنر عمران اسماعیل اور حلیم عادل شیخ کی طرف سے جو سرگرمی ہوئی اس کو سندھ حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش قرار دیا گیا اور پیپلز پارٹی ہمیشہ کی طرف مظلومیت کا ڈھول پیٹنا میں شروع ہوگئی۔ سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کی کوشش کس قدر سنجیدہ تھی؟ اس سوال پر بحث بیکار ہے۔ کیوں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے انتباہ کے بعد تو وہ معاملہ ختم ہوگیا۔ حالانکہ تحریک انصاف نے آفیشلی اس بات سے انکار کیا کہ وہ سندھ میں گورنر راج نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے یہ کہا کہ وہ مراد علی شاہ کی حکومت میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس کا سبب ان کا کرپشن میں مبینہ کردار بیان کیا گیا۔ اس وقت تحریک انصاف خاموش ہے مگر پیپلز پارٹی سندھ کا رڈ لیکر سیاسی مظلومیت کا رونا رونے میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی سیاسی طور پر ختم ہو رہی ہے۔ کرپشن کے دیمک نے پیپلز پارٹی کو مکمل چاٹ لیا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے کرپٹ کردار کے باعث زیرو ہوچکی ہے۔ اس کو ایسا ایشو نہ دیا جائے جس سے وہ ہیرو بننے کی کوشش کرے۔