2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

پی آئی اے خریدنے پر غو ر !

افتخار حسین شاہ
05-11-2024

میاں نواز شریف نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ پنجاب حکومت پی آئی اے خریدنے یا نئی ایئر لائن قائم کرنے پر غور کر رہی ہے ۔ساتھ ہی آج کے اخبار میں یہ خبرچھپی ہوئی ہے کہ لاک ڈاوٗن کے باوجود لاہور میں فضائی آلودگی خطرے کی حد سے بھی کہیں زیادہ ، گزشتہ برسوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ۔آپ کے علم میں ہو گا کہ لاہور شہر کا تقریباً ہر باسی اس وقت سانس اور گلے کی بیماریوں کا شکار ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اس شہر پر ایک عذ اب نازل ہو چکا ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ اس بڑے اور تاریخی شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے کہیں آنے جانے کے لئے موٹر سائیکل خرید رکھے ہیں اور زیادہ تر نے قسطوں پر ۔ عام لوگ عموماًآج کل رکشوں یا چنگچیوں پر سفر کرتے ہیں ۔ یہ دونوں سواریاں بھی خوب دھواں پھیلاتی ہیں ۔لاہور شہر میں اس وقت کتنے موٹر سائیکل اور رکشے چل رہے ہیں ان کی تعداد کوئی نہیں بتا سکتا ۔میں نے متعدد مرتبہ استدعا کی ہے کہ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ لاہور شہر میں ڈبل ڈیکر اومنی بسیں چلائے اور پرائیویٹ لوگوں کو بھی منی ویگنیں چلانے کی اجازت دے ۔ اسی شہر لاہور میں یہ دونوں سواریاں چلتی تھیں اور لوگوں کو کہیں آنے جانے کے لیے کوئی مسئلہ در پیش نہیں تھا۔ ایک دو روز پہلے میاں نواز شریف نے اسی پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ مجھے یہاں آتے ہوئے بھی جہاز تبدیل کرنا پڑا ۔انھوں نے فرمایا کہ نئی ائیر لائن مسافروں کو پاکستان سے ڈائریکٹ لندن نیویارک ، پیرس اور ٹوکیو پہنچائے ۔میاں نواز شریف کی پریس کانفرنس کے فرمودات پڑھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ اس دنیا میں امیروں کے اپنے مسائل ہیں اور غریبوں کے اپنے۔میاں نواز شریف کو دنیا گھومنے کے لیے ڈائریکٹ فلائٹس چاہیئں اور عوام کو لاہور شہر میں سفر کرنے کے لیے ڈبل ڈیکر اومنی بسیںچاہیں ۔مجھے یہاں علامہ محمد اقبال کا یہ شعر یاد آ رہا ہے پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں س کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور میاں نواز شریف تو کسی نہ کسی طور دنیا کے مختلف شہروں کو جانے کے لیے ڈائیریکٹ فلائٹس تلاش کر ہی لیں گے لیکن لاہور شہر کے باسیوں کو اس شہر میں آمد و رفت کے بڑے مسائل درپیش ہیں ۔انہی دنوں یہ خبر بھی اخبارات میں چھپی ہوئی تھی کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت بھی پی آئی اے خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی آئی اے جو ایک قومی ادارہ ہے اسے کسی صورت بھی کسی صوبائی حکومت کے حوالے نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ اس ادارہ کی مزید بربادی پر منتج ہو گا ۔ کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اسے اوپن آ کشن کے ذریعے کسی پرائیویٹ گروپ کو دے دیا جائے ۔جس قدر ممکن ہو سکے ایسے اداروں کو سرکاری تحویل سے دور رکھنا چاہیے ۔ مجھے یاد ہے میں اُس وقت ڈی سی او (DCO) حافظ آباد تھا جب مجھے ایک ایم این اے کے کار خاص، یا منشی کہہ لیں، نے بتایا تھا کہ وہ کام تو اس ایم این اے کے ساتھ کرتے ہیں لیکن دراصل وہ پی آئی اے کے ملازم ہیں اور تنخواہ اسی ادارے سے لیتے ہیں ۔کہنے لگا یہ ہمارے ایم این اے صاحب اُس وقت پیپلز پارٹی میں تھے جب انھوں نے مجھے پی آئی اے میں بھرتی کرایا تھا۔ اُس زمانے میں جناب آصف علی زرداری کا پی آئی اے میں بڑا اثر و رسوخ تھا ۔ بعد میں جب سیاسی حکومتیں چلی گئیں تو میں نے اسی لڑکے کو لاہور ائیرپورٹ پر اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے دیکھا۔ دیکھا ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے سیاسی ورکرز اور اُن کی اولادوں کو اپنے اقتدار کے دنوں میں سرکاری اداروں مں بھرتی کراتے ہیں اور پھر اس پورے خاندان کو اپنا ممنون احسان رکھتے ہیں۔کسی زمانے میں تو حکومتی ایم این ایز اور ایم پی ایز کو سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ بھی ملتا تھا ۔ ایک ایم این اے درجہ چہارم کے دس ملازم کسی سرکاری ادارے میں رکھوا سکتا تھا اور ایک ایم پی اے صرف پانچ ۔ایک صوبائی وزیر تو اس طرح کی بھرتی کو بالکل جائز سمجھتے تھے ۔ کہتے تھے کہ درجہ چہارم میں بھرتی کے لیے کسی خاص تعلیم کی تو ضرورت نہیں ہوتی ، سبھی ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ اسی طور ہم اپنے ایم این اے اور ایم پی ایز کو ممنون احسان رکھتے ہیں ۔ایک لمبا عرصہ سرکاری نوکری کرنے کے بعد میں تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جس قدر ممکن ہو سکے سرکاری محکموں کی تعداد کو کم رکھا جائے لیکن ہمارے سیاستدان پی آئی اے کو بھی سرکاری محکمہ بنانا چاہتے ہیں۔واضح سی بات ہے کہ پیسے تو خرچ ہونگے سرکاری خزانے سے لیکن یہ سرکاری ادارے ایک قسم کی ملکیت بن جائیں گے حکومتی فرما روانوں کے۔ جنہیں صرف اور صرف اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر ان اداروں میں کوئی میرٹ نہیں ہو تا ۔یہ ان کے انچارج سیاست دانوں کے مفاد میں ہو تا ہے ۔نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ پی آئی اے جیسے ادارے کو کوئی نہ کوئی حکومت اونے پونے داموں ضرور خرید لے گی اور پھر موجیں لگ جائیں گی حکمرانوں کی۔ دنیا کے جس جس شہر میں بھی انھوں نے جانا ہو گا وہاں اُنھیں اس ادارے کی ڈائریکٹ فلائٹس پہنچایا کریں گی۔ان کے سیاسی حلقے کے بے شمار افراد اس ادارے میں بھرتی ہو جائیں گے اور وہ ہمیشہ اور پوری زندگی اپنے بھرتی کرانے والے محسنوں کو ووٹ دیتے رہیں گے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں آج بھی ذاتی مفادات کی سیاست رواں دواں ہے ۔ملک سیاسی نظریا ت لے کر چلتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں آج بھی سیاسی خاندانوں کے مفادات کو ہی مقدم سمجھا جاتا ہے ۔ سچ پوچھیں ملکی حالات رو بہ زوال ہیں ۔دور دور تک کوئی اُمید کی کرن نظر نہیں آتی ۔ نہ جانے اس ملک کو کب ان پڑھ سیاستدانوں کی اجارہ داری سے نجات ملے گی اور نظریاتی سیاست یہاں بھی رواں دواں ہو گی ۔آج بھی اس ملک کو ایک سیاستدان تو میسر ہے جو خاندانی سیاست پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی دولت کے انبار اکٹھے کرنے کا شوق رکھتا ہے لیکن وہ تو اس ملک کی جیل میں چھوٹے سے سیل میں بند ہے ۔آج تک تو وہ ڈٹا ہوا ہے لیکن نہ جانے کب تک ۔