پی ٹی آئی توجہ کریگی؟
اشرف شریف
یہ درست ہے کہ ملک میں سیاسی ماحول جمہوری نہیں رہا۔ کچھ اور سچ موجود ہیں جن کو اٹھا کر تحریک انصاف بار بار عوامی احتجاج کی کال دے رہی ہے۔ سب کے پاس اپنے فیصلوں کا جواز موجود ہے اس لئے اب بحث کا نتیجہ برائے بحث کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ مگر پی ٹی آئی کے متعلق ایک عوامی مقدمہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ فیصلے کیوں اور کون کر رہا ہے لیکن ایک تسلسل سے ایسا ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی لحاظ سے اہم موقع پر پی ٹی آئی اسلام آباد میں احتجاج کی کال دے دیتی ہے۔مسلم لیگ نواز مسلسل کہہ رہی ہے کہ 2014ء کا دھرنا اس وقت دیا گیا جب دوست ملک چین کے صدر پاکستان آ رہے تھے۔ چینی صدر نے دارالحکومت میں حالات کشیدہ دیکھ کر دورہ ملتوی کر دیا۔ اگر کوئی دانش مند سفارتی معاملات سے واقف ہو تو وہ بتا سکتا ہے کہ دورہ ملتوی ہونے کے سیاسی‘ سفارتی اور اقتصادی نوعیت کے کن نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سفارتی لغت بتاتی ہے کہ سربراہ مملکت کسی خود مختار ریاست کا سب سے بڑا نمائندہ ہوتا ہے۔ کئی بار ہیڈ آف سٹیٹ حکومت کا سربراہ نہیں ہوتا۔ یہ کئی بار اس کے پاس دونوں اختیار ہوتے ہیں۔ ہیڈ آف سٹیٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اندرون ملک اور بیرون ملک اپنی ریاست کی یکجہتی کی علامت ہو۔ ہیڈ آف سٹیٹ اپنی ریاست کے سیاسی نظام پر انحصار کرتے ہیں۔ بادشاہی نظام میں بادشاہ یا ملکہ ہیڈ آف سٹیٹ ہوتے ہیں۔ جمہوری ریاست میں عام طور پر صدر یہ فریضہ انجام دیتا ہے۔ جب کسی سربراہ ریاست کا دورہ میزبان ملک میں گڑ بڑ کی وجہ سے منسوخ ہو تو یہ پیغام جاتا ہے کہ میزبان ملک میں مہمان ہیڈ آف سٹیٹ اور اس کی ریاست کے متعلق ناپسندیدہ خیالات رکھنے والے لوگ طاقتور ہو رہے ہیں۔ حالیہ دنوں ملائشیا کے وزیر اعظم جناب انور ابراہیم پاکستان میں تھے۔ وہ جس روز اسلام آباد پہنچے پی ٹی آئی کے قافلوں کو چلنے کی ہدایت کر دی گئی۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سعودی عرب‘ متحدہ امارات اور چین کے بعد پاکستان کے دوست ممالک کی جو دوسری صف بنتی ہے ملائشیا اس میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ ملائشیا کو صرف پام آئل کی وجہ سے اہمیت نہیں بلکہ سابق صدر مہاتیر محمد نے چار برس پہلے جب کشمیر کے معاملے پر پاکستانی موقف کی حمایت کی اور اس پر کھل کر بات کی تو مودی حکومت نے پام آئل کی خریداری بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ بھارت ملائشیا سے پام آئل خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ 2023ء میں بھارت نے ملائشیا سے 3.55ارب ڈالر کا پام آئل خریدا۔ اندازہ کریں کہ ملائشیا پاکستان کی حمایت کر کے اپنا کتنا بڑا نقصان کیا تھا۔ جبکہ پاکستان اور ملائشیا کی پوری دو طرفہ تجارت کا حجم صرف ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کو بہت کچھ فروخت کر سکتے ہیں لیکن کوئی ان دیکھا نظام ہر بار ان کے تعلقات کا راستہ کاٹ دیتا ہے۔ انور ابراہیم واپس جا چکے ہیں۔ ایک سربراہ حکومت کے طور پر وہ شائد دوبارہ پاکستان آئیں یا نہ آ سکیں لیکن وہ جو تاثر لے کر گئے ہیں وہ ان کی یادداشتوں اور سرکاری ریکارڈ کا حصہ بن کر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا ہے۔ کیا وطن عزیز میں اتنا دور تک کسی نے اس معاملے کو رکھ کر دیکھا؟ شنگھائی تعاون تنظیم پاکستان کے لئے اہم ہے۔ بھارت جی 20سمیت دنیا کی اہم ترین تمام تنظیموں کا رکن ہے۔ پاکستان کے لئے سب سے اہم شنگھائی تعاون تنظیم ہے۔ یہ کوئی دفاعی اور معمول کی ڈھیلی ڈھالی تنظیم نہیں بلکہ ملٹی پولر دنیا میں توازن پیدا کرنے کی صلاحیت کی مالک ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد 10ہے جبکہ 4ممالک بطور مبصر اس کا حصہ ہیں۔ ایس سی او سیاسی‘ معاشی اور انٹرنیشنل سکیورٹی سے متعلق مشترکہ پالیسیوں کے لئے کام کرتی ہے۔ آبادی و جغرافیہ کے لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی تنظیم یا بلاک ہے۔ اس میں یوریشیا کے 80فیصد علاقے اور دنیا کی 40فیصد آبادی شامل ہے۔ اس تنظیم کے الگ سے 14ڈائیلاگ پارٹنر ممالک ہیں۔ پاکستان ایس سی او سے انسداد دہشت گردی‘ ٹرانس نیشنل کرائمز‘ ثقافت‘ سماجیات‘ معیشت اور دیگر علاقائی امور میں فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یوریشیا سے منسلک ہونے کے لئے ایس سی او پاکستان کے لئے بہت اہم ہے۔حکومت پی ٹی آئی پر ایس سی او اجلاس ثبوتاژ کرنے کے لامات لگا رہی ہے اور حکومت نیاجلاس کے دوران امن وامان برقرار رکھنے کے لئے اسلام آباد میںفوج تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔نوٹیفکیشن کے مطابق ایس سی او سمٹ کیلئے فوج کی تعیناتی آرٹیکل 245 کے تحت کی گئی، فوج ایس سی او سمٹ کے دوران اسلام آباد میں 17 اکتوبر تک تعینات رہے گی۔بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر بھی اسلام آباد میں ہونے ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سمٹ میں شرکت کریں گے۔ اسلام آباد میں 15اور 16اکتوبر کو ایس سی او کا سربراہ اجلاس ہو رہا ہے۔10سال سے بھارت نے پاکستان میں اپنا کوئی سفارتی وفد نہیں بھیجا۔ دو سال قبل بلاول بھٹو وزیر خارجہ کے طور پر بھارت گئے تو وزیر خارجہ جے شنکر نے ان سے بات تک نہ کی۔ اب مودی نے جے شنکر کو پاکستان جانے کی ہدایت کی ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ معاشی بحران کا سامنا کرنے والا پاکستان اور اس کے لوگ کیسے ہیں‘ اندازہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے ساتھ تجارت و سرمایہ کاری کے تعلقات استوار کریں تو یہاں کا ماحول انہیں کس طرح کی مدد فراہم کر سکتا ہے۔ اب اگر انہیں لگے کہ یہاںتو مظاہرے‘ احتجاج اور ہنگامے ہی نہیں رکتے تو کون سرمایہ کاری کرے گا؟ چند روز کے لئے احتجاج اگر موخر کر دیا جاتا تو بہتر نہ تھا؟تحریک انصاف کو اپنے ساتھ ہونے والی ہر ناانصافی یا زیادتی پر احتجاج کا حق ہے‘ لیکن ہر حق استعمال کرنے کا کوئی موزوں وقت بھی ہوتا ہے۔ کل کلاں تحریک انصاف خود بھی حکومت میں آ گئی تو اس کے وقت بے وقت احتجاج کی حالیہ لہر کے اثرات پریشان کریں گے۔ جناب عمران خان اس پر کچھ توجہ فرمائیں گے؟