2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

چند باتیں اور کتابیں

سعد الله شاہ
26-12-2018

سب سے پہلے اقبال عظیم کا ایک شعر: دامان توکل کی یہ خوبی ہے کہ اس میں پیوند تو ہوسکتے ہیں دھبے نہیں ہوتے جی ہاں یہ وہی بصارت سے محروم عظیم شاعر ہیں جنہوں نے کہا تھا: بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ اس نعت کے خوبصورت شعر کے ساتھ مجھے حافظ مظہرالدین یاد آ گئے کہ ان کا ایک شعر حرز جاں رہا جسے میں مطلع کے ساتھ پیش کردیتا ہوں: ہم سوئے حشر چلیں گے شہہ ابرار کے ساتھ قافلہ ہو گا رواں قافلہ سالار کے ساتھ یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ کون روتا ہے لپٹ کر در و دیوار کے ساتھ حافظ صاحب کی کلیات بھی نعت مرکز سے ارسلان احمد ارسل نے شائع کی تھی۔ میری ان سے ایک ملاقات مجید منہاس کے گھر نعتیہ محفل میں ہوئی تھی۔ مندرجہ بالا شعر سے محمد علی ظہوری کیونکر یاد نہ آئیں گے: بس یاد رہا اتنا سینے سے لگی جالی پھر یاد نہیں کیا کیا انوار نظر آئے بات یوں ہے کہ میں تو آج کچھ کتب کا ذکر کرنا چاہتا تھا کہ جو شعرا اور ادبائے مجھے بھیج رکھی ہیں اور وقت ہی نہیں ملتی کہ ان کو ٹک کر پڑھا اور لکھا جا سکے۔ بکھیڑے ہی اتنے ہیں۔ اخبار میں بھی دیکھنا ہوتی ہیں، سوشل میڈیا بھی کھینچتا اور سب سے بڑھ کر سخن وری جو میری پہچان ہے۔ وقت نے تو جیسے پنکھ لگا لیے ہے۔ وہی صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے۔ زندگی یوںتمام ہوتی ہے۔ تھی تند و تیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سرشام ہوگئے کچھ دوستوں کے مطالبات بھی ہیں جو کوشش کے باوجود پورے نہیں ہو پائے۔ ابھی ڈاکٹر اسحاق وردگ کے شکوہ کیا کہ اور لکھا ’’شاہ صاحب! سلام و رحمت، سجاد بابر پر آپ کے کالم کا انتظار ہے۔ میری بے بسی یہ کہ میری سجاد بابر صاحب سے کوئی ملاقات نہ رہی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ اس خواہش کے پورا ہونے سے پہلے خود ان کا ایک بھرپور مضمون ہمارے اخبار 92 نیوز میں شائع ہوگیا۔ خود انہوں نے بتایا کہ سجاد بابر ایک بے نیاز شاعر تھے اور کچھ ایسے اوریجنل شاعر کو جان بوجھ کرنظرانداز کیا گیا، وہ زیادہ تر پشاور ہی میں رہے۔ یہی ہمارے ہاں مصیبت ہے کہ ایسے باوقار اور وضعدار شاعر کو کون پوچھتا ہے۔ یہاں تو مافیاز بنے ہوئے ہیں۔ یہاں تو باقاعدہ منوورکرنا پڑتا ہے۔ اچھا شاعر اس پی آر سے دور بھاگتا ہے۔ ویسے بھی یہ ایک رویے کا نام ہے: مت شکایت کرو زمانے کی یہ علامت ہے ہار جانے کی اوریجنل شاعروں کو پیچھے دھکیل کر راستہ بنانے والے ویسے ہی سنگ دل ہوتے ہیں۔ چالاک اتنے کہ اگر شہادت آڑے نہ ہوتی ہو تو یہ نشان حیدر بھی لے اڑیں۔ چلیے اب کچھ کتب کا ذکر بھی ہو جائے۔ صائمہ اسحاق کا شعری مجموعہ ’’رخت‘‘ میرے سامنے ہے۔ ان سے ابھی تک کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ نام ان کا گردش کرتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کی شاعری نظر سے گزری۔ جامعہ کراچی سے انہوں نے ماسٹر کیا۔ اسی شہر میں ملازمت کی۔ ازدواجی ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ شاعری کو بھی سنبھالے رکھا۔ بلکہ شاعر کو شاعری خود ہی نہیں چھوڑتی اور یہ ایک اوریجنل شاعر کی نشانی ہے، وگرنہ کئی شاعر خوشحال ہوتے ہی شاعری کو خیرباد کہہ گئے۔ رخت ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ نمونہ کلام: یہ کڑا وقت ملا دیتا ہے مٹی میں انا کیسے کیسوں سے مدد مانگنا پڑ جاتی ہے بات کرنے سے لب چٹختے تھے میں نے پتھر بنا لیا خود کو دوسرا شعری مجموعہ طارق چغتائی کا ہے۔ وہ ہمہ وقت شاعری اور ادب کے ساتھ اپنا تعلق رکھتے ہیں۔ ماہانہ شاعرہ بھی بزم چغتائی کے تحت ہوتا ہے جس میں لاہور کے کونوں کھدروں سے بھی شاعر آتے ہیں۔ یہ اصل میں ان کا کتھارسز سنٹر ہے۔ طارق چغتائی کا شعری مجموعہ ایک اچھا اضافہ ہے۔ ان کے ہاں ردیفوں کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ شعر وہ اچھا نکالتے ہیں: ایک مدت سے اسی کوشش پیہم میں ملے تیرے پیکر میں ڈھلیں چاند دیا اور جگنو شعری مجموعے کا نام بھی انہوں نے اسی شعر سے نکالا ہے ’’چاند دیا اور جگنو‘‘۔ بہرحال ایسے درویش شاعروں کا دم غنیمت ہے کہ وہ دوستوں کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ایک تازہ ترین شعری مجموعہ عرفان صادق کا ہے۔ عرفان کا اب سینئر شعرا میں شمار ہوتا ہے۔ خیر سینئر شاعر تو کئی ہیں یہ کوئی توصیف نہیں۔ وہ طرحدار شعر کہتا ہے اور بات بناتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ وہ شعر سے بھی محبت نبھا رہا ہے۔ اکثر اس سے مشاعروں میں ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ وہ خود بھی سیوا آرٹ سوسائٹی کے تحت اچھے اچھے مشاعرے برپا کرتا ہے۔ شاعری میں اس کا دعویٰ ہے: میرے اللہ کا احسان بہت ہے مجھ پر میری آواز جدا رہتی ہے آوازوں سے اگرچہ یہ شعری مجموعہ الگ مضمون کا متقاضی ہے چلیے پھر کبھی سہی۔ دو شعر دیکھ لیں: کہیں جھٹکا ہے اس نے اپنا آنچل مرے گھر میں ستارے گر پڑے ہیں عمر تمام یوں مری رستوں میں دھول کی اس نے بچھڑنے کی بڑی قیمت وصول کی اور آخر میں ذکر ڈاکٹر فرقان احمد قریشی کی کتاب حرف ریزے: اقوام متحدہ: انصاف کے نام پر طاقتور کی دلالی۔ کتھارسز: بارش برسنے کے بعد کا منظر۔ خیالات۔ آسمان ذہن پراڑتے ہوئے آوارہ بادل ایٹم بم: دوسروں کو نیچا دکھانے کی خواہش اور کوشش میں انسانیت کی موت کا سامان۔