ڈنکی سوار پاکستانیوں کی ہلاکت
مارطانیہ سے سپین جانیوالی کشتی کے ڈوبنے سے اس میں ڈنکی لگا کر سپین جانے والے 4پاکستانی سوار جاں بحق ہو گئے ہیں۔ روزگار کے لئے یورپ جانے کا سلسلہ 70کی دہائی میں شروع اور 80کی دہائی میں اپنے عروج کو پہنچا۔ اس دوران گجرات، منڈی بہائوالدین، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ سمیت وسطی پنجاب کے اضلاع کی نہ صرف بڑی تعداد بیرون ممالک گئی بلکہ ان اضلاع میں قانونی اور غیر قانونی طور پر یورپ بھجوانے والے ایجنٹوں کی بڑی تعداد پیدا ہوئی جو آج بھی نوجوانوں کو ورغلا کر 25سے 35لاکھ روپے لے کر غیر قانونی طور پر یورپ بھجوانے کا جھانسہ دیتے ہیں ۔آئل ٹینکرمیں،ڈنکی اور کشتیاں ڈبونے سے پاکستانیوں کی ہلاکتیںنا صرف معمول بن چکی ہیں بلکہ ہر سانحہ کے بعد ایجنٹوں کا تعلق بھی انہیں اضلاع سے نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوجرانوالہ ڈویژن میں ایف آئی اے سے دو خصوصی آفس قائم کر رکھے ہیں ۔گزشتہ ایک سال میں ایف آئی اے نے 32انسانی سمگلروں کو 163مقدمات میں گرفتار کیا مگر بدقسمتی سے یہ غیر قانونی دھندہ اب بھی جاری ہے حالانکہ امیگریشن آرڈیننس 1979ء کے 2018ء میں منظوری کے بعد انسانی سمگلروں کو 14برس قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے ۔ اس دھندے میں بے پناہ دولت غیر قانونی کاروبار کو فروغ دے رہی ہے۔ بہتر ہو گا حکومت انسانی سمگلروں کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈائون کے ساتھ غیر قانونی طور پر بیرون ممالک جانیوالے کے خلاف بھی موثر قانون سازی کرے تاکہ غیر قانونی کاروبار بند ہو اور نوجوانوں کو بے موت مرنے سے بچایا جا سکے۔