کرتار پور راہداری کا افتتاح
ظہور دھریجہ
وزیر اعظم عمران خان آج28 نومبر کو کرتار پور راہداری کا افتتاح کریں گے جو بھارتی ضلع گورداسپور کے ڈیرا بابا نانک کو پاکستان میں گوردوارہ کرتار پور صاحب سے منسلک کرے گا اور بھارتی سکھوں کو یہاں تک پہنچنے کیلئے ویزا فری رسائی ہوگی ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی جانب سے کرتار پور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کیلئے اپنے دو وزراء کو بھیجنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کو مثبت قرار دیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے امن کے قدم پربھارتی جواب مثبت ہے۔ کسی بھی پاکستانی کو کرتار پور راہداری کے افتتاح پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے لیکن وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے اتنی گزارش ہے کہ وہ دوسری راہداریوں کے بارے میں بھی اسی طرح کے جذبے کا مظاہرہ کریں ۔ جیسا کہ ملتان دہلی قدیم راہداری ہے اور یہ راستہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ اور حضرت نظام الدین اولیاء کے زائرین کا راستہ ہے۔ اگر ملتان دہلی بس سروس شروع کر دی جائے تو اس کا فائدہ دونوں ملکوں کی مسلم آبادی کو ہوگا اور یہ پاکستان کے حق میں نہایت ہی بہتر ہے۔ جنرل ضیا الحق دور میں سکھوں کو سہولتیں دینے کا عمل شروع کیا گیا اور میاں نواز شریف نے بھی اس عمل کو آگے بڑھایا ۔ جبکہ مسلم آبادی کو سہولتیں دینے کے لئے اقدامات نہ ہوئے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو ہندو پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے وہاں گئے ان کو بھی سہولتیں حاصل نہ ہو سکیں ۔ میں بحیثیت کمیونٹی بات نہیں کرنا چاہتا کہ سکھوں میں بھی اچھے لوگ ہونگے ، مگر 19ویں صدی کے آغاز میں رنجیت سنگھ اور دوسرے سکھ حکمرانوں نے صوبہ لاہور اور صوبہ ملتان کی مسلم آبادی پر جو مظالم ڈھائے وہ انسانی تاریخ کی المناک داستان ہے ۔ اسی طرح تقسیم کے وقت 1947ء میں مسلم پنجابیوں کو جس طرح گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق 25 ہزار اور غیر سرکاری ریکارڈ کے مطابق قریباً 80 ہزار مسلم دوشیزاؤں کو سکھوں نے اپنے پاس رکھ کر جس بربریت کا مظاہرہ کیا اسے کسی طرح بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ہندوستان اور پاکستان کے دوران مصالحت کے خلاف نہیں لیکن حکومت کو تمام اقدامات سوچ سمجھ کر کرنے ہونگے کہ یہ خیر سگالی کل کو پاکستان کے گلے نہ پڑ جائے کہ سکھوں کا دعویٰ یہ ہے کہ لاہور‘ ننکانہ صاحب ہمارے ہیں کہ یہ ہمارے مقدس مقامات ہیں ۔ اس بات کا اظہار وہ سرعام نہیں کرتے لیکن پٹیالہ میں عالمی پنجابی کانفرنس کے موقع پر ہم نے بہت سے سکھوں کی زبانی یہ باتیں سنیں۔ کرتارپور راہداری پر ویزا فری رسائی پر اصولی طور پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے مگر یہ سہولت صرف مشرقی پنجاب کے سکھوں کیلئے نہیں ہونی چاہئے ، دونوں ملکوں کی مسلم آبادی کو بھی اس سے استفادہ کی سہولت حاصل ہونی چاہئے ۔ پاکستان میں ریاست مدینہ کی بات کرنے والی جماعت پر اور بھی لازم ہے کہ وہ اس معاملے پر غور کرے ۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ تقسیم ہند کے بعد دونوں ملکوں کے مسلمان بغیر ویزے کے سفر کرتے تھے مگر جونہی حالات خراب ہوئے تو ویزے پر خونی رشتے کی پابندی لگا دی گئی ۔ ہم اپنے ملتان کو دیکھتے ہیں تو روہتک، حصار اور ہریانہ سے کثیر تعداد میں مسلم آئے ہوئے ہیں ۔ ان کے بہت سے رشتے دار ہندوستان میں رہ گئے ‘ وہ تعزیت کیلئے بھی نہیں جا سکتے ، کسی اپنے بیمار رشتہ دار کی تیمارداری کرنے بھی نہیں جا سکتے ۔ وہاں جا کر اپنے آباؤ اجداد کے شہر ، محلے ، بستیاں ، گھر اور صحن دیکھنا ان کی زندگی کی حسرت ہے ، دو تین نسلیں یہ حسرت لے کر اگلے جہاں چلی گئیں مگر وہ وہاں نہیں جا سکے ۔ عجب بات ہے کہ آج آدمی گھنٹوں میں سات سمندر پار پہنچ سکتا ہے لیکن ملحقہ بارڈر کے دوسری طرف نہیں جا سکتا۔ ویزا آفسز لاہور ، اسلام آباد میں ہیں ، یہ سہولت ملتان میں ہونی چاہئے کہ ملتان پاکستان کا مرکزی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ عین وسط میں ہے اور اس سے سب برابر فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو دوسری مرتبہ وزارت خارجہ کا قلمدان ملا ہے ، ان کو اس مسئلے پر غور کرنا چاہئے ۔ میں نے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی خدمت میں گزارش کی تھی کہ کہنے کو کہا جاتا ہے پاکستان نے بہت ترقی کر لی ہے مگر صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں ریلوے نظام کو توسیع دینے کی بجائے پاکستان میں انگریز کی طرف سے بنائے گئے کئی ریلوے سیکشن بند ہوئے اور سینکڑوں کلومیٹر ریلوے لائنیں اکھاڑ لی گئیں جبکہ بھارت نے ہزاروں کلومیٹر نئی ریلوے لائن بچھائیں اور کئی میٹر گیج سے براڈ گیج یعنی چھوٹی لائنوں کو بڑی لائنوں میں تبدیل کیا ۔ صرف سمہ سٹہ ، امروکہ سیکشن کی مثال لیجئے کہ اس سیکشن پر اب ایک انجن ایک پسنجر بوگی پر مشتمل ریل گاڑی علامتی طور پر چلائی جا رہی ہے، وہ بھی عدالتی حکم پر وگرنہ 126 کلومیٹر طویل سیکشن پر 31 ریلوے اسٹیشن عملی طور پر بے کار پڑے ہیں ۔ مگر دوسری طرف بھارت کا ایک ریلوے اسٹیشن فاضلکا جو امروکہ سے آگے والا اسٹیشن ہے بند ہوا جبکہ اس سے اگلے سٹیشن بٹھنڈہ جنگشن کو بھارت نے اتنی وسعت دی کہ اب وہاں سے سات ریلوے لائنیں مختلف علاقوں کیلئے نکلتی ہیں اور ہمارا میکلوڈ جنکشن جسے اب منڈی صادق گنج کہا جاتا ہے، دیدہ عبرت بنا ہوا ۔ بٹھنڈہ سے آگے فیروز پور ہر طرح کی ترقی اور مواصلاتی سہولتوں سے مزین ہے جبکہ ہمارا بہاولنگر اسٹیشن بندہے ۔ کیا ہمارے حکمرانوں نے اس پر کبھی غور کیا کہ یہ ترقی ہے یا ترقی معکوس؟ امروکا بٹھنڈہ بارڈر بھی کھلنا چاہئے کہ یہ راستہ حضرت خواجہ نور محمد مہاروی ؒ اور حضرت معین الدین ؒچشتی اجمیری کا راستہ ہے ، اس کا بھی مسلم آبادی کو فائدہ ہے ، میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ قیام پاکستان سے پہلے سمہ سٹہ تا دہلی براستہ امروکہ بٹھنڈہ بہت بڑا ریلوے روٹ تھا اور یہاں سے چلنے والی پسنجر و گڈز ٹرینوں کی تعداد دوسرے روٹوں سے کہیں زیادہ تھی اور بہاولنگر اس روٹ کا بہت بڑا اسٹیشن اور تجارت کا بہت بڑا مرکز تھا ۔ بہاولنگر کا ریلوے اسٹیشن اتنا وسیع اور خوبصورت تھا کہ سیاح محض اسے دیکھنے کیلئے آتے تھے ۔ مگر قیام پاکستان کے بعد امروکہ بٹھنڈہ روٹ بند ہونے سے سب کچھ اجڑ گیا ۔ آج اگر اس سٹیشن کی زبوں حالی اور بربادی کا نظارہ کیا جاتا ہے تو سنگدل سے سنگدل آدمی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے ہیں۔ دوسری جانب بہاولنگر سے کم حیثیت کے شہروں کو بہت زیادہ ترقی دے دی گئی ۔