کرونا وائرس اور اقتصادیات کی جنگ
احمد اعجاز
کیا کرونا وائرس حقیقت تھی یا پھر عالمی طاقتوں کا نئی اقتصادی سَمت کے تعین کرنے کا منصوبہ تھا؟ یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ عالمی طاقتیں ہر صورت میں عالمی منڈی پر اپنا کنٹرول مضبوط رکھنا چاہتی ہیں۔انہوں نے طے کررکھا ہے کہ ٹیکنالوجی سے لے کر عقائد تک کو وہ اپنے مالی مفادات کے لئے استعمال کریں گی۔ عمومی طور پر عالمی میڈیا اِن طاقتوں کی قوت بڑھانے کیلئے صف ِ اول کا کردا ادا کرتا ہے۔ مثلاََ ’برطانوی استعماریت‘ میں ڈاکٹر اکمل سومرو نے لکھا ہے کہ گزشتہ صدی کے سانحات میں سائنسدانوں، ماہرین سیاسیات، اقتصادیات، عمرانیات، مذہبی پیشواؤں اور میڈیا نے بہ طور استعماری آلہ کارکردار ادا کیا ہے۔ حال ہی میں دْنیا کرونا وائرس کی ’آفت‘ سے گزری ہے۔ یقین کیجئے اس وائرس نے عالمی طاقتوں کو ملٹی پولر دنیا کی طرف بڑھنے کا سرٹیفیکیٹ دے دیا ہے۔ اس نئے ایجنڈے میں سائنسدان، حکمران طبقات، بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کو بہ طور طاقت استعمال کیا جارہا ہے۔میڈیا ایک ایسا جنگی ہتھیار بن چکا ہے جو عالمی طاقتوں کے گلوبل ایجنڈے کو حتمی شکل دینے کیلئے عوام الناس کی ذہن سازی کرتا ہے۔ آپ شاید یقین نہ کریں مگر ایسا ہمارے ساتھ کرونا وائرس کے دوران ہوچکا ہے۔ ایک ’نادیدہ وائرس‘ پر اٹھارہ مارچ 2015میں بل گیٹس نے اپنی ٹیڈ ٹاک میں سوال اٹھاکر ایک کروڑ انسانوں کی ہلاکت کی تنبیہ کی تھی اور پھر سات ماہ بعد اس وائرس کی پروڈکشن پر کام شروع ہوا اور حیران کن طور پر مالی معاونت بل گیٹس کے ادارے گیٹس فاؤنڈیشن نے کی، یعنی یہ وائرس قدرتی نہیں بلکہ لیبارٹری میں تیار ہوا۔ یہ ناقابل ِ یقین سانحہ نہ صرف وقوع پذیر ہوچکا بلکہ لاکھوں قیمتی انسانی جانیں نگل چکا ہے۔ مصنوعی طور پر کی جانے والی اس سرگرمی میں حیاتیاتی جنگ کا نقشہ بنا کر دنیا میں 18مہینے تک وائرس سے پیدا ہونے والی وباء سے نمٹنے کی مشق ہوئی اور بتایا گیا کہ وائرس سے چھ کروڑ پچاس لاکھ انسان ہلاک ہونگے۔ وائرس بنانے والے اور اِس وائرس کی آڑ میں فائدے اٹھانے والوں نے چھ کروڑ انسانوں کی موت کا پروانہ تیار کرکے عالمی میڈیا کے ذریعے عوامی ذہن سازی کی راہ ہموار کردی۔ اس مشق کے د و مہینوں بعد ہی کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی خبریں تیزی سے عالمی ذرائع ابلاغ سے نشر ہونے لگیں۔عالمی میڈیا نے کرونا وائرس کو ’یقینی موت‘ کے ساتھ جوڑ دیا حالانکہ اِس وائرس نے محض صفر اعشاریہ تئیس افراد متاثر ہوئے۔ عالمی میڈیا نے عوامی ذہن سازی کرتے ہوئے دنیا بھر کی حکومتوں پہ زور دیا کہ وہی اِنسان زندہ رہے گا جو فوراََ ’کرونا ویکسین استعمال کرلے گا۔ یوں یورپی یونین نے ایک اَرب ساٹھ لاکھ خوراکیں، برطانیہ نے اِکیس کروڑ نوے لاکھ خوراکیں، کینیڈا نے اَٹھارہ کروڑ اَسی لاکھ خوراکوں کا آرڈر مختلف فارماسوٹیکل کمپنیوں کو دیا۔ اِن کمپنیوں نے ویکسین کی مصنوئی قلت پیدا کرکے زیادہ منافع بھی کمایا ساتھ ہی اِن کمپنیوں نے زیر ِ ملکیتی پیٹنٹ ویکسین کی پروڈکشن پر قدغن لگادی۔ مثلاََ آکسفرڈ یونیورسٹی نے ابتدائی طور پر اْوپن سورس ویکسین بنانے کا وعدہ کیا تھا جسے کوئی بھی ملک دوبارہ تیار کرسکتا تھا لیکن عالمی استعماریت کی ایک نئی شکل میں قائم بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے آکسفرڈ یونیورسٹی کو فارماسوٹیکل کمپنی کے ساتھ شراکت پہ مجبور کیا جس کے بعد سویڈن کی آسٹرازینکا کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرکے یونیورسٹی اپنے ملکیتی حقوق سے دستبردار ہوگئی۔میلنڈا نے مئی 2021میں ستائس سالہ رفاقت کے بعد بل گیٹس سے طلاق لینے کا فیصلہ کرلیا۔ ابتدائی طور پر طلاق کی وجوہات کو کرونا سے جوڑا گیا مگر عالمی میڈیا پہ اِس ایشو کو دبا دیا گیا۔اگرچہ ٹائم میگزین نے کرونا کالز کے نام سے کچھ وجوہات لکھنے کی کوشش کی مگر معاملہ دب کے رہ گیا۔ بل گیٹس کو عالمی سطح پر کمیونٹی فورمز پہ شدید تنقید کانشانہ بنایا گیا۔ قبل ازیں نیو یارک میں کی گئی اِس مشق کے شرکاء کا شجرہ ِ نسب بھی قابل ِ غور ہے۔ بہ طور ماہر شرکاء میں چائنیز سنٹر فارڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کے ڈائریکٹر جارج فوگاؤ، سابق امریکی صدر اوباما کی ڈپٹی نیشنل سکیوریٹی ایڈوائزر اور امریکی سی آئی اے کی خاتون ڈپٹی ڈائریکٹر ایورل ہینس، امریکی ادارے سی ڈی سی کے ڈائریکٹر ریپیئر ایڈمرل سٹیفن سی ریڈ، فارما سوٹیکل کمپنی جونسن اینڈ جونسن کے نائب صدر ایڈریان تھامس اور لفتھانسا گروپ ائیر لائن مارٹن نیو چل شریک ہوئے۔جانسن اینڈ جانسن وہ کمپنی ہے جس نے ایبولا، ایچ آئی وی اور ڈینگی ویکیسن تیار کی تھی۔ جبکہ ڈبلیو ایچ اور میں پہلی بار ایک ایسے شخص کو ڈائریکٹر تعینات کیا گیا جو گیٹس فاؤنڈیشن میں کام کرتا رہا۔یہ ایک ایسی سوچی سمجھی جنگ تھی جس میں تمام اقوام ِ عالم کو جھونک دیا گیا۔ جنگ میں فتح اور ہار کی صورت میں ایک گروپ نقصان اٹھاتا ہے جبکہ ایک گروپ نقصان میں رہتا ہے۔ ہر جنگ کے پیچھے اْس سے فائدہ اٹھانے والوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کے مقاصد کیا تھے۔ مثلاََ نائن الیون کا ڈرامہ اسلحہ ساز کمپنیوں نے رچایا یوں نائن الیون کے بعد ’دہشت گردی‘ کی جنگ میں امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں نے کھربوں ڈالرز کا اسلحہ بیچا۔ کرونا لاک ڈاؤن کے ذریعے فارما سوٹیکل کمپنیوں نے اربوں ڈالرز کمائے۔ ان کمپنیوں کو کرونا وائرس ویکسین کی تیاری کا ٹاسک ملا اور کمپنیوں کو امریکی خزانے سے فنڈنگ کی گئی۔اِس کرونا کے ذریعے دنیا بھر کو لاک کردیا گیا اور عالمی طاقتوں نے تجزیہ کیا کہ آئندہ اقتصادیات کا پہیہ گھنٹوں میں جام کیا جاسکتا ہے۔ حیران کن طور پر اس لاک ڈاؤن کے ذریعے عالمی طاقتوں نے دنیا بھر کے ممالک کی اقتصادیات کی نئی سمت کا تعین کیا جس کے نتائج جلد سامنے ہونگے۔ہوسکتا ہے کہ چین اور امریکی اقتصادی کشمکش اسی عالمی جنگ کا شاخسانہ ہو۔