کشمیر، انٹر نیشنل لا اور پاکستان
آصف محمود
27 اکتوبر کو بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں اتار کر جس کھیل کا آغاز کیا تھا ، 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کو ناجائز طور پر بھارت کا حصہ قرار دے کر بھارت نے اپنے تئیں اس کھیل کو مکمل کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ساری صورت حال میں انٹر نیشنل لا کیا رہنمائی فراہم کرتا ہے؟ 1 ۔ انٹر نیشنل لا کا پہلا اصول یہ ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے ، بھارت کا حصہ نہیں ہے۔ایک متنازعہ اور حل طلب ایشو کے طور پر یہ اقوم متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ 2 ۔ انٹر نیشنل لا کے مطابق کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کشمیریوں نے کرنا ہے ۔ یہ فیصلہ نہ کشمیر کی نام نہاد اسمبلی کر سکتی ہے نہ بھارت اپنے آئین میں ترمیم کر کے کر سکتا ہے۔ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ نہ بھارت کی نگرانی میں ہونے والے کسی انتخابی عمل کے ذریعے ہو گا نہ ہی کسی ریفرنڈم کے ذریعے ۔ یہ صرف اس استصواب رائے کے ذریعے ہو گا جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو گا۔30 مارچ 1951 ء کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں یہ اصول صاف طور پر بیان کیا جا چکا ہے۔ سلامتی کونسل نے نومبر 1956ء میں اسی اصول کا ایک بار پھر اعلان کیا کہ یہ معاملہ صرف اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے استصواب رائے سے ہی حل ہو سکتا ہے ۔کسی الیکشن ڈرامے سے نہیں۔ 3۔ انٹر نیشنل لا کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کوئی ملک کسی مقبوضہ علاقے پر حق ملکیت کا دعوی نہیں کر سکتا۔ یعنی کسی علاقے پر قبضہ کر لینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ علاقہ اب قابض ملک کا حصہ مان لیا جائے گا۔ یہ اصول 1928ء کے معاہدہ پیرس میں طے ہو چکا اور اسی کا اعادہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی ذیلی دفعہ 4 میں کیا گیا ہے۔ انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے اپنے 4 اگست 2004ء کے اعلامیے میں بھی اسی اصول کا اعادہ کیا کہ کسی علاقے پر قبضہ کر لینے سے قابض قوت اس علاقے کی مالک نہیں بن جاتی۔ مقبوضہ علاقہ ہمیشہ مقبوضہ ہی رہے گا۔ اس نکتے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی متعدد قراردادیں بھی موجود ہیں ۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے کمیشن UNCCP نے بھی سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی کانفرنس میں یہی اصول طے کیا تھا۔ 4۔ انٹر نیشنل لا کے مطابق مقبوضہ علاقہ جات کے لوگوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ قابض ملک سے وفاداری کا اعلان کریں۔ 5۔ یہی نہیں بلکہ انٹر نیشنل اس سے آ گے بڑھ کر مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ غاصب قوت کے خلاف مسلح جدوجہد کریں۔1949ء کے جنیوا کنونش کے ایڈیشنل پروٹوکول 1کے آرٹیکل 1 کی ذیلی دفعہ 4 میں کشمیریوں کے اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔یہ پروٹوکول بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مسلح تصادم اور جنگوں کے متاثریں کے تحفظ سے متعلق ہے اور اس کے آرٹیکل 1 کی ذیلی دفعہ 4 میںکہا گیا ہے کہ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے اگر کوئی کسی غاصب قوت سے لڑ رہا ہے تو اس مسلح تصادم کو بھی دیگر جنگوں کی طرح (انٹرنیشنل آرمڈ کانفیلکٹ) بین الاقوامی تنازعہ سمجھا جائے گا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اسے دہشت گردی نہیں تصور کیا جائیگا بلکہ یہ بین الاقوامی تنازعہ قرار پائیگا۔ 6 ۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 3314بھی کشمیریوں کو مسلح جدوجہد کا حق دیتی ہے۔ 3 دسمبر 1982 ء کو جنرل اسمبلی میں ایک اور قرارداد (نمبر 37/43) منظور کی گئی اور اس کی کلاز 2 میں نہایت واضح انداز سے لکھ دیا کہ حق خود ارادیت اور غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدو جہد ایک جائز اقدام تصور ہو گا۔ سواال اب یہ ہے کہ ان حالات میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے ؟کافی کچھ کیا جا سکتا ہے مگر سردست چار نکات پر بات کر لیتے ہیں۔ 1۔ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 96 کے تحت جنرل اسمبلی میں لے جائے اور جنرل اسمبلی کے ذریعے عالمی عدالت انصاف سے ’ایڈوائزری اوپینین‘ مانگے۔ اور اس سے پوچھے کہ بھارت نے جس طرح سے کشمیر کی حیثیت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کیا ہے اور جو کچھ وہ وہاں کر رہا ہے، کیا یہ اقوام متحدہ کے چارٹر، اور سلامتی کونسل کی قراردادوں اور انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں ایک ناجائز قدم نہیں ہے؟ کیا یہ جنگی جرائم کے زمرے میں نہیں آتا؟ اور کیا کشمیر کی حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کی قراردادوں ہی کی روشنی میں نہیں ہو گا؟ان سوالات کا جواب، بہت واضح ہے کہ کیا ہو گا اور اس سے بھارت کے خلاف، قانون کی دنیا میں، مقدمہ مزید مضبوط ہو جائے گا۔ ماضی میں ہم دیکھ چکے کہ اسرائیل کی جارحیت کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف سے اسی طرح کے ’ایڈوائزری اوپینین‘ لی جا چکے ہے۔یہ اگر چہ اپنی نوعیت میں قابل نفاذ نہیں ہو گا لیکن بہر حال اس کی ایک اپنی معنویت ا ور اہمیت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 2۔ کشمیر کا مسئلہ دو طرفہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔ البتہ شملہ معاہدے کے بعد بھارت کا اصرار رہا ہے کہ اب یہ ایک دوطرفہ مسئلہ ہے تو پاکستان چاہے تو اس کے پاس یہ آپشن بھی موجود ہے کہ وہ بھارت کے چھ اگست کے اقدام کے بعد شملہ معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے خود کو اس سے آزاد کر لے۔ کیونکہ بھارت ویسے ہی شملہ معاہدے کو پامال کر چکا ہے۔ پاکستان کشمیریوں سے یک جہتی کے اظہار کے طور اس معاہدے سے کو آزاد کر لے۔ 3۔ پاکستان اپنے آئین کے آرٹیکل 257 میں کچھ نئی چیزیں شامل کرے۔ یعنی اس میں ترمیم تو نہ کرے لیکن اسےexpand ضرور کرے، وہ بھی اس انداز سے کہ کشمیر کے مقدمے کی نوعیت پر کوئی فرق نہ پڑے۔ یہ کام حالیہ آئینی ترمیم میں ہو جانا چاہیے تھا لیکن ہماری قومی سیاست اس طرف توجہ نہ کر سکی۔ 4۔ آزاد کشمیر کی ایک اپنی سپریم کورٹ موجود ہے۔ کشمیریوں کو چاہیے اس معاملے کو وہاں لے جائیں اور سپریم کورٹ سے کشمیر کی قانونی حیثیت پر ایک جامع فیصلہ لیں جس میں یہ لکھا ہو کہ ہماری قسمت کا فیصلہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب رائے سے ہو گا۔ اس فیصلے میں کشمیر کا پورا مقدمہ پیش کیا گیا ہو اور اس فیصلے کا دنیا بھر میں ابلاغ کیا جائے۔ بے شک اس فیصلے کا نفاذ نہیں ہو سکے گا لیکن اس کی غیر معمولی اہمیت ہو گی۔