2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

کشمیر ی صحافیوں کی حالت زار: آخر یہ جانبداری کب تک؟

افتخار گیلانی
02-10-2018

پچھلے ہفتے جب نوجوان کشمیری صحافی آصف سلطان کی پابہ جولاں تصویریں سوشل میڈیا پر گشت کر رہی تھیں، تو امید بندھی تھی کہ آزادی اظہار رائے کے علمبردار اس کا نوٹس لیکر کشمیر کی صحافتی برادری کے ساتھ بطور ہمدردی ہی اظہار یکجہتی کریں گے۔ پولیس کی معیت میں ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنے آصف سلطان سوال کر رہا تھا کہ کیا صحافت ایک جرم ہے؟1990ء سے لیکر اب تک کشمیر میں 19صحافی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ حالیہ جون میں رائزنگ کشمیر گروپ کے چیف ایڈیٹر اور مقتدر صحافی شجاعت بخاری کو موت کی نیند سلایا گیا۔ اس کے ایک ماہ بعد ہی جولائی میں کشمیر آبزور سے وابستہ عاقب جاوید کو دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی کا انٹرویو لینے کی پاداش میں حراست میںلیکر کئی روز تک انٹروگیشن کیا گیا۔ پچھلے سال ستمبر میں فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو بد نام زمانہ Unlawful Activities Prevention Act (ULPA) کے تحت گرفتار کرکے چھ ماہ تک دہلی کی تہاڑ جیل میں پابند سلاسل رکھا گیا۔ وہ اب ضمانت پر باہر ہیں۔ شکوہ تو بس اس قدر ہے کہ جب اس طرح کے واقعات پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک یا بھارت کے اندر پیش آتے ہیں تو اظہار آزادی کے علمبردار ، سول سوسائٹی کے کارکنان و غیر سرکاری تنظیمیں میدان میں کود جاتی ہیں، مگر نہ جانے کیوں جب کشمیری میڈیا پر افتاد آن پڑتی ہے تو ان کو جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ آصف سلطان عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔ آخر شورش زدہ علاقوں میں تو اکثر صحافی عسکریت پسندوں یا حکومت سے برسرپیکار گروپوں کے رابطہ میں رہتے ہیں۔ کشمیر ایڈیٹرز گلڈ کے مطابق سرینگر سے شائع ہونے والے اخبارات کو اب آئے دن نوٹس موصول ہورہے ہیں، جن میں انکو شائع رپورٹوں اور دیگر مواد کی وضاحت کرنے اور خبروں کا سورس ظاہر کرنے کیلئے کہا جاتا ہے۔ جو نہایت تشویش کن صورت حال ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے خاص طور پر جمہوری ممالک میں میڈیا کو خبروں کے سورس کو ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتاہے۔ کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔ سکیورٹی فورسز‘ عسکری تنظیموں اور حکومت نواز تائب جنگجوئوںکے درمیان انہیں چکی کے پاٹوںکی طرح پسنا پڑتا ہے کیونکہ صحافی ہی سب سے آسان شکار ہوتے ہیں۔ حکام کی طرف سے صحافیوںکو کرفیو پاس جاری نہ کرنے اور فورسزکے ذریعے انہیں ہراساں کرنے کی وجہ سے سرینگر سے شائع ہونے والے تقریباً تمام اخبارات کو شورش کے دوران کئی کئی دن اپنی اشاعت بند رکھنی پڑتی ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ کشمیر میں صحافت کی روح کو زندہ و تابندہ رکھنے والے ان صحافیوںکو ایک آدھ واقعات کے سوا قومی اور بین الاقوامی صحافتی برادری کی طرف سے بھی نظر اندازکیا جاتا رہا ہے۔ پولیس اور سکیورٹی فورسزکے ہاتھوں فرضی انکائونٹرز میں بے گناہ شہریوں کے قتل کے متعدد واقعات ان دنوں سامنے آرہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جبراً لاپتہ کردئیے جانے کا سب سے پہلا واقعہ جو1989ء میں پیش آیا وہ ایک صحافی کا ہی تھا۔ محمد صادق شولوری اردو کے پندرہ روزہ’’تکبیر‘‘ میں سینئر کاتب تھے۔ ایک دن وہ دفتر گئے اور پھرکبھی لوٹ کر گھر نہیں آئے۔ ان کی بیوی اور بچے آج بھی ان کے منتظر ہیں اور بد حال زندگی بسر کرنے کی زندہ تصویر ہیں۔1990ء میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے گورنر جگ موہن نے ایک نوجوان صحافی سریندر سنگھ اوبرائے کو گرفتارکرنے اور تین اخبارات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے پرنٹنگ پریس سیل کردیے گئے اور ان کے خلاف بدنام زمانہ ٹاڈا قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ 2010ء کی ایجی ٹیشن کے دوران بھارت کی وزارت داخلہ نے نوٹیفکیشن جاری کرکے رائزنگ کشمیر اور دیگر کثیرالاشاعت روزناموںگریٹرکشمیر اورکشمیر ٹائمزکے سرکاری اشتہارات بند کرنے کا حکم صادرکیا۔اگر دنیامیں کسی بھی جرنلز م کے طالب علم کو یہ اسٹڈی کرنی ہو کہ کس طرح اور کس حد تک اسٹیٹ کسی میڈیا ادارے کو ہراساں اور اسکی مالی حیثیت پر ضرب لگاسکتی ہے تو اسکو سری نگر اور جموں سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ کشمیر ٹائمز کے کیس کو مطالعہ میں ضرور لانا چاہئے۔ کشمیر ٹائمز کے سلسلے میں تمام سرکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کو بھی ایک مراسلہ جاری کیا گیا کہ چونکہ اخبار ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس لئے اسے اشتہارات دینا بند کر دیا جائے ۔ حتیٰ کہ پرائیوٹ سیکٹر اور تاجربرادری کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بھی کشمیر ٹائمز سے دور رہیں۔ سابق وزیر داخلہ اور کانگریسی رہنما پی چدمبرم ، جو آج کل اپنے کالموں کے ذریعے مودی حکومت کو آزادی اظہار پر قد غن لگانے پر خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہیں، نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر میڈیا کو ہراسان کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ کشمیر ٹائمز کے معاملے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ اس لئے بھی کچھ زیادہ ہی خار کھائے ہوئے تھا کہ اس کے مالک جموں سے تعلق رکھنے والے ایک وسیع القلب ہندو وید بھسین تھے ۔ ان کے جرأت مندانہ قلم کو ملک دشمنی ، بنیاد پرستی و انتہا پسندی کے کھاتے میں ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ کشمیر ٹائمز کی رپورٹنگ و ایڈیٹوریل کسی بھی بھی صورت میں نئی دہلی کے گلے نہیں اترتے تھے۔ پچھلی کانگریسی حکومتوں کے دور میں مجھے دہلی میں کئی بار حکومتی اداروں کے ذمہ داران نے کہا کہ وید جی کو وزیر اعظم من موہن سنگھ یا وزیر داخلہ پی چدمبرم سے ملنا چاہئے، مگر وید جی صرف اشتہارات بحال کرانے کیلئے وزیروں سے ملنے پر کبھی راضی نہیں ہوئے۔ دنیاوی نقصانات سہنے کے باوجود اس درویش کی گردن خم نہ ہوئی۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ 2015ء میں اپنی وفات سے قبل انہیں سری نگر کا انتہائی جدید پریس زمین سمیت بیچنا پڑا۔ ’’کشمیر ٹائمز‘‘ کی سرکولیشن خاصی کم کرنی پڑی‘ مگر اقدار اور اصولوں پر کبھی اس درویش نے حرف نہ آنے دیا۔وید جی نے کشمیر ٹائمز میں کام کرنے والے صحافیوں کو اصولوں کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہ کرنے کا درس دیا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ یہی تلقین کی کہ میڈیا کو اختلاف رائے کا ذریعہ بنائو اور حکومت کا ساتھ دینے کے بجائے ہر وقت اس کا احتساب کرتے رہو‘ چاہے تمہارے دوست ہی حکومت میں کیوں نہ ہوں۔ ایک اور کشمیری فوٹو جرنلسٹ محمد مقبول کھوکھر (جو مقبول ساحل کے نام سے مشہور تھے) ساڑھے تین سال تک مقدمہ چلائے بغیر جموں کی بدنام زمانہ کوٹ بلاول جیل میں قید رہے۔ اسی سال ان کا انتقال ہوا۔ حکومت نے انہیں رہا کرنے کے لئے جموں و کشمیر ہائیکورٹ اور قومی انسانی حقوق کمیشن کی درخواستوں پر بھی کان دھرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔کھوکھرکو 2004ء میں ان دنوںگرفتارکیا گیا جب جنوبی ایشیائی صحافیوںکی تنظیم سیفما کی قیادت میں پاکستانی صحافیوںکا وفد بھی ریاست کا دورہ کر رہا تھا۔(جاری ہے)