کوٹ مٹھن کا قطبی دروازہ
ڈا کٹر طا ہر رضا بخاری
خواجگان ِ کوٹ مٹھن کی اقدار و روایات کی روحانی امانتداری کا فریضہ تو خواجہ غلام قطب الدین فریدی نے بھی خوب نبھایا ،گزشتہ روز سلطان العاشقین حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کے 127 ویں سالانہ عرس پرضعف اور علالت کے باوجود زائرین کی خدمت میں منہمک اور لنگر کی تقسیم اور کھانے کی ترسیل میں مستعد تھے۔ یہی وصف ِکمال حضرت خواجہ غلام فرید کو میسر تھا، کہ جہاں تشریف لے جاتے، بیچارے مریدوں پر بوجھ بننے کی بجائے لنگر اور طعام کا ا ز خود ایسا شاندار اہتمام فرماتے، جس سے پور ا قریہ فیض پاتا۔ مستزادیہ کہ جو نذرانہ جات ونقدی پیش ہوتا وہ بھی اپنے میزبان کو عطا فرماکر گویا اس کی مہینوں کی کفالت کا اہتمام فرما دیتے۔ عرس کی اختتامی دُعا اور محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام ''فکر ِ فرید کانفرنس'' میں حاضری کے بعد ڈپٹی کمشنر راجن پور شفقت اللہ مشتاق، خواجہ غلام قطب الدین فریدی، جن کو ان کے مشائخ اور کوریجگان ِ کوٹ مٹھن نے '' سالار ِچشت '' قرار دے رکھا ہے اور دیگر عمائدین کے ہمراہ '' قطبی دروازہ '' سے ہوکر نئے تعمیراتی پراجیکٹ کے افتتاح کی سعادت پائی، جس کو ساڑھے آٹھ کروڑ کی لاگت سے مکمل کیا گیا۔ اس میں زائرین برآمدہ، ایڈ من بلاک،واش رومز، وضو خانہ، ٹائیل فلورنگ اور دیگر تعمیرات شامل ہیں۔ مزار شریف سے متصل سماع خانہ اور مجموعی انوائر منٹ میں بہتری کے لیے کئی اقدامات درکار ہیں۔ مشائخ کے سوشل میڈیا سیل بہت متحرک ہیں، باہمی مسابقت سے بھی بعض اوقات خانقاہ کا بنیادی جوہر متاثر ہوتا ہے، خود نمائی پر مبنی خود ساختہ رسومات سے بھی کوئی مثبت پیغام نہیں جاتا۔ فلیکس سازی سے بھی ماحولیاتی کثافت، دھڑے بندی اور جتھہ برداری کا تاثر غالب آتا ہے۔ایسے میں اس قافلے میں ایک بے ریا اور بے لوث شخص خواجہ قطب الدین فریدی بھی تھا، جو خانقاہ کو اس کی اصل روایت کے ساتھ تابندہ رکھنے کی تڑپ رکھتا ہے۔ کوٹ مٹھن شریف کی خانقاہ کے بانی خواجہ قاضی محمد عاقل ہیں، جو خواجہ نور محمد مہاروی سے فیض یافتہ تھے، جن کے والد گرامی مخدوم محمد شریف کے نام پر ''کوٹ مٹھن شریف '' کا قریہ آباد ہوا۔ مٹھن خان جو کہ علاقے کا رئیس اعظم تھا، مخدوم محمد شریف کا ایک راسخ العقید ہ مرید تھا۔ اس نے اپنے شیخ کے لیے دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر یہ شہر آباد کیا، جس کا نام ان دونوں حضرات کے نام پرکوٹ مٹھن شریف رکھا، گویا اس میں لفظ '' شریف '' ذاتی ہے، نہ کہ صفاتی۔ مخدوم محمد شریف کے صاحبزادے قاضی عاقل صاحب سے اس خانقاہ کی بنیادیں مستحکم ہوئیں۔ آپؒ کے وصال کے بعد خواجہ احمد علی اور پھر خواجہ خدا بخش مسند پہ متمکن ہوئے، آپ ایک متبحرعالم اور بلند پایہ درویش تھے۔ نواب بہاولپور نے آپ کے لیے دریائے سندھ کے شرقی کنارے چاچڑاں شریف میں عالی شان رہائش گاہ تعمیر کروائی، جو فرید محل کے نام سے معروف ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید ؒ(1845ئ۔1901ئ)نسباً فاروقی، مسلکاًحنفی اور مشرباً چشتی نظامی تھے۔آپؒ کا تاریخی اسم گرامی خورشید عالم تھا لیکن ''فرید''کے نام سے معروف ہوئے۔چاچڑاں شریف میں پید اہوئے۔ علوم شریعت وطریقت میں کمال پایا،پوربی، ہندی،سندھی،اُردو اور فارسی کے شعر کہے لیکن اپنے احساسات وجذبات،عقائد ونظریات،مسائل تصوف اور بالخصوص ''وحدت الوجود''کو سرائیکی زبان میں زوردار اور دلکش انداز میں پیش کیااور خوب کیا۔ انہیں سرائیکی زبان کا ''رومی'' ہیوم اور ملک الشعرا کہا گیا۔ ان کی'' ہمہ اوستی'' فکر نے تصّوف کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ ان کی سوچ اور فکر کا راستہ جہاں حُسنِ فطرت کے نظاروں، روہی رُت رنگیلڑ ی کی بہاروں، اُجڑی جھوکوں، ٹیلوں، ویرانوں، جنگلوں، ٹوبوں، نخلستانوں، صحرائی قافلوں اور روہی کی تہذیب و ثقافت کے خارجی مناظر سے ہوکر گزرتا ہے، وہیں ان کی نظر اپنی قطار سے بچھڑی کُونج پر بھی پڑتی، وہ فطرت کے ہر رنگ میں جلوہ یار کو دیکھتے اور اس کا بر ملا اظہار فرماتے؛ ہمہ اوست دے بھید نیارے ہر ہر شے وچ کرن نظارے جانن وحدت دے ونجارے اصل تجلی طوری نوں یعنی:''ہمہ اوست(وحدت الوجود)کے اسرار و رموز عجیب و غریب اور نرالے ہیں، انہیں تو صرف وحدت کے متلاشی (وجودی نظریات رکھنے والے) ہی جان سکتے ہیں، جو ہر چیز میں ذاتِ حق کا جلوہ دیکھتے ہیں۔ '' حضرت خواجہ غلام فریدؒ 9سال کے تھے کہ آپؒ کے والد،اللہ کو پیارے ہوگئے۔ والی ریاست بہاولپور نواب فتح یار جنگ،جوکہ آپؒ کے والد ماجد حضرت خواجہ خدابخشؒ کے مرید تھے، نے آپؒ کے برادرِکلاں اور شیخ، حضرت خواجہ غلام فخر الدینؒ کی اجازت سے آپ ؒکے قیام کا اہتمام،ڈیرہ نواب کے شاہی محل میں فرمایا۔ آپؒ صاحب ِ کرامت بزرگ تھے۔ایک مرتبہ ملک میں خشک سالی ہوگئی، نواب صاحب نے آپ ؒسے بارش کے لیے دعا کی درخواست کی،آپؒ نے کچھ دیر مراقبہ کیا، پھر دُعا فرمائی اور اللہ کے فضل سے ایسی بارش ہوئی کہ تمام ملک سیراب ہوگیا۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ اپنے برادرِکلاں حضرت خواجہ غلام فخر الدینؒ کے وصال،بمطابق5جمادی الاوّل 1288ھ،27سال کی عمر میں مسند ِرُشد وہدایت پہ متمکن ہوئے۔آپ ؒ کے علمی تبحر اور باطنی کمالات کا شُہرہ،جوکہ پہلے ہی چہار دانگ عالم میں تھا، سریر آرائے مسند ہونے پر نقطہ عروج کو پہنچ گیا۔لوگ جوق در جوق حاضر ہو کر شرفِ بیعت سے سرفراز ہونے لگے۔ آپؒ کے دیگر کمالات کے علاوہ ایک اہم ترین یہ تھا کہ آپؒ از خود مسندِ تدریس پر جلوہ گر ہوتے اور بالخصوص یارانِ طریقت کو تفسیر، حدیث کے ساتھ بطورِ خاص کتبِ تصوّف جن میں عوارف المعارف،فصوص الحکم، لوائح جامی اور احیاء العلوم شامل ہیں، کا درس دیتے۔نشست کے اختتام پر بطورِ خاص علماء اور طلبہ کے لیے دسترخوان آراستہ کرتے۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے تذکرہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ آپؒ نے اٹھارہ سال روہی(چولستان) کے صحرا میں زُہدوریاضت اور عبادت ومجاہدہ میں صَرف کیے۔آپؒ نے راہِ طریقت و تصوف میں نئے انداز بھی متعارف کروائے، عشق حقیقی و مجازی کی عمومی بحثوں اور رجحانات میں ایک نئی راہ اور اسلوب ''عشق جودی'' کی طرح ڈالی۔ ان کے نزدیک عشق،حصولِ معرفت کی اساس اور بنیادہے جس سے انسانوں کو حقیقی سکون میسر آتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حضرت خواجہ صاحبؒ کا کلام اور افکار و نظریات امید، زندگی اور حرارت کا پیغام اور سراسر عمل کی دعوت ہے اور اس پیغام اور دعوت کو عام کرنے کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی کہ کل تھی۔حضرت خواجہ صاحبؒ کا کلام کامل توحید، کامل تقویٰ اور کامل محبت کا آئینہ دار اور عشقِ رسولﷺسے منور ہے اور یہی ان کے فکروفن کاحقیقی فلسفہ واصل حکمت ہے اور اسی کی ترویج اور تشہیر کی ضرورت ہے تاکہ ایسے اکابر صوفیا کے فکر و فلسفہ پر بلاوجہ آنے والے اعتراضات کا تدارک ہو سکے۔