کچھ یادیں
سعد الله شاہ
جن دن میں ادبی کالم لکھتا ہوں تو فیڈ بیک کچھ زیادہ ہی آتا ہے۔ بشریٰ رحمن اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا جیسے ہر دلعزیز اور نامور بھی مجھے سراہتے ہیں۔ شجاعت ہاشمی اور آمنہ الفت جیسے مختلف النوع دوست داد دیتے ہیں۔ اصل میں ادب ہر کسی میں ہوتا ہے اس پر ادیبوں کی اجارہ داری نہیں۔ یہ تو ذوق و شوق کی بات ہے۔ ادب تو روشنی کی ایک جھلک کی طرح ہے۔ باد صبا کے لمس کی طرح یا پھر محبت کے درد کی کسک کی طرح۔ یہ بادلوں کی طرح تیرتا۔دریا کی طرح موجیں مارتاہوا یا پھر کسی آبشار کی طرح گرتا ہوا۔ کلی سے پھول بنتا ہوا‘ زمین سے نکلتی ہوئی پہلی کونپل کی طرح یا پھر چھوئی موئی کی طرح سمٹتا ہوا۔ یہ عام حالت میں بھی کسی ایسے لمحے کی طرح ہوتا ہے جو آپ کو اپنی طرف متوجہ کر لے۔عدیم یاد آیا: دور سے جان لیا میں نے کہ گھر تیرا ہے بیلیں لپٹی ہوئی دیکھیں جہاں دیوار کے ساتھ اس شعر کو بھی دیکھتے جائیں: برلب ناز گل حرف دعا میرے لیے اے فلک دیکھ مجھے چشم گہر بار کے ساتھ زندگی میں ایسے دلگداز مقام آئے ہیں جو بھلائے نہیں بھولتے ۔ انہی دنوں میں ہمارے دوست اور نامور خطاط سلام شاہ نے ایک اگربتی پر ہندی میں کیپشن لکھا اور مجھے دکھایا کہ اس نے کیسی ہندی خطاطی کی ہے میں نے برجستہ کہا’’سبحان اللہ۔ یہ کسی مسلمان کی لکھی ہوئی لگتی نہیں‘‘ یہیں سے مجھے ایک اور دلچسپ واقعہ یاد آیا کہ جن دنوں پروفیسرز BOC کے خلاف جلوس نکال کر سیکرٹریٹ کے سامنے آئے تو کمپیئرنگ کے دوران میں نے تاجران کے صدر خالد پرویز کے ٹرک پر آ کر زبردست تقریر کی تو سب حیران تھے۔ ایسے ہی منیر نیازی خالد احمد کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ’’مجھے آج تک پتہ نہیں چلا کہ یہ داد دیتا ہے کہ مذاق اڑاتا ہے‘‘ وہ تو آپ کو بھی یاد ہو گا کہ جب حفیظ جالندھری نے یہ شعر پڑھا: حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں خالد احمد پاس ہی بیٹھے تھے’’ کہنے لگے‘ حفیظ صاحب’’ زور تے فیر لانا ای پیاناں’’یعنی زور تو لگانا ہی بڑا۔ ایک مرتبہ ہمارے دوست انور ملک جو کچھ زیادہ ہی بھاری بھرکم تھے اور بیٹھے بیٹھے سے تنگ تھے نے مشاعرے میں ایک شعر پڑھا: تارے توڑ کے لے آئوں گا امبر سے لیکن آنے جانے میں کچھ دیر لگے گی اس کے بعد وہ مجھے دیکھنے لگے تو میں نے کہا وہ تو لگے گی۔ ظاہر ہے اتنی بھاری بھرکم اقدام سے تارے توڑ کر کیسے جلدی واپس آ سکتا ہے۔ میرے قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ بھی بتاتا چلوں کہ انور ملک نے ایک خوبصورت شعر بھی کہہ رکھا تھا: جب بھی آتا ہے مرے جی میں رہائی کا خیال وہ مرے پائوں کی زنجیر ہلا دیتاہے اب بتائیے کہ اس کالم کو سیاست کی طرف کیسے موڑوں یا پھر ایسے ہی چلنے دوں۔بعض اوقات مغالطے بہت مزہ دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی موسم تھا سرما کی دھوپ اور ہم باغ جناح میں ریکارڈنگ کر رہے تھے۔ حامد سیال پروڈیوسر تھا۔ ہمارے ساتھ جو کیمرہ مین تھا اس کا رنگ ذرا سیاہی مائل تھا۔ جس میں سے اس واقعہ نے جنم لیا شمسہ کنول نے میرا گیت گانا شروع کیا : اج وی بنیرے اُتے کاں بولدا کالجے نوں ٹھنڈ پیندی جی ڈولدا کیمرہ مین نے بہت داد دی اور میرا شکریہ ادا کیا کہ کسی نے اس کے لئے بھی گیت لکھا۔ راز کھلا تو پتہ چلا کہ وہ کالجے کو جس کا مطلب دل ہوتا ہے وہ کالے جیہے‘ سمجھ کر زور دے رہا ہے یعنی کالا سا‘‘ ساری ٹیم یہ سن کر ہنسنے لگی اور شمسہ کنول سے گانا مشکل ہو گیا۔ بڑی یادیں ہیں جو دھند کی طرح اردگرد آ کر پھیل جاتی ہیں۔ کیا زمانہ تھا۔ میاں شہریار کہتے ’’شاہ جی کیسا لگا گانا‘ کمپوزیشن کیسی ہے‘ میں نے ایک لفظ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا’’میاں صاحب اس لفظ پر زبر ہے زیر نہیں‘ کہنے لگے ہاں مجھے بھی شک پڑا تھا پھر میں نے کوشش کی کہ ایسے گوایا جائے کہ یہ زبر لگے نہ زیر‘‘ میں نے کہا تو پھر آپ ہماری شاعری کے پیش پڑ گئے ہیں۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ یہی زندگی ہے اور یہی ادب ہے۔ کوئی نہ کوئی بات ایسی کہ پھلجھڑی چھوٹ جاتے۔ میں نے تو زرداری کا بھی لطف لیا کہ وہ کہتے ہیں کہ لاڈلے کے پاٹے ڈھول ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے حالانکہ وہ ان کے پول کھول رہے ہیں۔ اس پر پی ٹی آئی والوں کا تجاہل عارفانہ دیکھو کہ کہہ رہے ہیں زرداری نے پاٹا ڈھول نواز شریف کو کہا ہے اور انہیں یہ کہتے ہوئے ہنستی تو آئی ہو گی اس طرح شیخ رشید مخالفوں کو میراثی قسم کے لوگ کہہ رہے ہیں مگر اس پر داد نہیں دی جا سکتی کہ میراثی ایسے میراثی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ اعظم خورشید پی ٹی وی ملازمت دینے والوں کی ٹیم میں صدارت کر رہے تھے۔ ذہن میں رہے کہ اعظم خورشید سنگر بھی تھے ایک بانسری نواز انٹرویو کے لیے آیا تو اعظم نے پوچھا ’’کوئی تجربہ ہے‘‘ وہ بھولپن میں کہنے لگا ’’آپ کے ساتھ کئی مرتبہ بانسری بجائی ہے۔ اعظم غصے سے کہنے لگے ’’میں کوئی میراثی آں‘‘ آگے سے شادے نے کہا’’کاش تسی ہوندے‘ اس کے بعد وہ دوڑ کر کمرے سے نکل گیا۔ یہ بھی رکھا ہے دھیان میں ہم نے تیر پلٹا اگر نشانے سے بات لوٹ آئے تو اس کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے بلکہ مخالف کو داد دینے میں بخل نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن ایک کوشش کرنی چاہیے کہ فقرے میں اخلاقیات کو ضرور مدنظر رکھا جائے۔ ایسے نہیں کہ جیسے شیخ رشید نے کہا یہ بدبودار آدمی ہیں۔ بھائی آپ کتنا عرصہ ان کے ساتھ رہے تب بھی وہ ایسے ہی تھے اور ان کے لئے جو جملے آپ بے نظیر کے لیے بولتے رہے وہ کس کو بھول سکتے ہیں۔ اللہ بے نظیر کی مغفرت کرے آمین۔ آخر میں بے نظیر کی شہادت پر کہی گئی غزل کے دو اشعار: کس نے لہو گرا کے مٹایا نشان بھی سورج کے ساتھ ڈوب گیا آسمان بھی حاکم نے اپنے خوف سے اس کو مٹا دیا تلوار بنتی جاتی تھی اس کی زبان بھی