کھونٹے کی گائیں
اشرف شریف
حضرت جامی کا ہی کام ہے، ہم تو پڑھ کر سبحان اللہ کہہ سکتے ہیں۔بسم اللہ الرحمان الرحیم کے نو رکن ہیں اس پر حضرت جامی نے گرہ لگائی ہست کلید در گنج حکیم بسم اللہ الرحمان الرحیم اب ہمارے لیے ایسی گرہ کا قیاس کرنا بھی کارے دارد ہے۔ تاہم ہم اپنے اور عوام کے مسائل پر گرہ ضرور لگاتے ہیں اور دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں کہ ہم ان پاکستانیوں میں شامل ہیں جو نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ان نہ تین اور نہ تیرہ والوں میں " وہ" بھی شامل تھا۔ وہ زیادہ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا اور اس کی اتنی تعلیم بھی نہیں تھی۔ ویسے وہ زیادہ پڑھا لکھا ہوتا تب بھی میرا خیال ہے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑنا تھا البتہ کسی عہدے وہدے پر ہوتا تو اس کی نفسیات پر ضرور اثر پڑتا۔وہ ایک عام دفتر میں عام سی نوکری کر رہا تھا۔ اس کی دال روٹی چل رہی تھی۔ چھوٹا سا گھر بھی بنا لیا تھا۔ماں باپ بیمار ہوئے تو مستقل اس کے گھر آ گئے۔والدین سیدھے سادے لوگ تھے وہ یہی سمجھتے تھے کہ بیٹے نے شہر میں گھر بھی بنا لیا ہے اور برسرروزگار بھی ہے سو اس کے حالات بہت اچھے ہیں۔اصل میں تو وہ پاؤں گھسیٹ گھسیٹ کر گزارا کر رہا تھا۔باپ کا علاج بھی چل رہا تھا اس کے الگ اخراجات کا اضافی بوجھ آن پڑا تھا۔دفتر میں بھی وہ اس کلاس سے تعلق رکھتا تھا جو افسر کے سامنے" جی سر جی سر" کے علاوہ کچھ کہہ ہی نہیں سکتی۔حکم ہوتا کہ آج ضروری کام ہے دفتری اوقات کے بعد مجھے ملنا۔تو وہ دیر تک بیٹھا رہتا۔افسر بسا اوقات بھول جاتا کہ اس نے کسی کو روکا ہوا ہے اور شام گہری ہو گئی ہے۔اس نے افسر کے کمرے میں جا کر نہیں کہنا تھا کہ آپ نے مجھے کسی کام کے لیے روکا تھا حکم کریں۔یقین مانیے اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے چالاک لوگوں کا تناسب تو بہت کم ہے۔ باپ زیادہ بیمار ہوا تو ایک سرکاری ہسپتال میں داخل کروانے کا مسئلہ آن کھڑا ہوا۔اب سرکاری ہسپتالوں میں داخل ہونا ڈاکٹری کے کورس میں داخلہ لینے کے برابر ہے۔آخر کار ایک واقفیت کی بنیاد پر کینسر وارڈ میں داخلہ مل گیا۔وہ ہسپتال ہمارے دفتر کے بالکل نزدیک پڑتا ہے اور شہر کے وسط میں قائم و دائم ہے۔ منقول ہے کہ شیر علی خان مجاہد ککے زئی نے 1872ء کے دوران کالا پانی میں چھری کے وار سے اس وائس رائے ہند گورنر جنرل لارڈ میو کو قتل کرکے تاج برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس عظیم مسلمان پختون ہیرو کو 11 مارچ 1872ء کو سر عام پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ غازی شیر علی خان مجاہد ککے زئی کو پھانسی کی سزا سناتے ہوئے جج نے کہا تھا کہ ہم ایسا کام کریں گے دنیا تجھے بھول جائے گی لیکن لارڈ میو کو نہیں بھولے گی اس لیے اس کے نام کا ہسپتال بنا دیا۔ اسی ہسپتال میں اس کے باپ کو داخل ہوئے آج تیسرا دن تھا۔ وہ بھی ظاہر ہے باپ کے ساتھ تھا اور تین دن سے ہسپتال میں تھا۔ہمارا اس سے پرانا تعلق تھا اسی تعلق کے ناتے اس کے باپ کی تیمار داری بھی ضروری تھی ۔جس دن ہم اس کے باپ کو دیکھنے اس ہسپتال کی تیسری منزل پر واقع کینسر وارڈ میں گئے اس دن نرس بہنوں کی ہڑتال تھی ۔ وہ شہر کے وسط میں ٹریفک روک کر بیٹھی تھیں۔اب خیر سے ایسی حرکت کی کسی میں جرات نہیں کہ جن کی حکومت ہے اور وہ ہر کام کی نگرانی پر از خود مامور ہو گئے ہیں۔نہ تین اور نہ تیروں میں شامل وہ تین دن تک تیمار دار باپ کی حالت دیکھتا رہا۔ کسی نرس یا ڈاکٹر کو کہہ بھی نہیں سکا کہ اس مریض کو کوئی آ کے دیکھ ہی لے۔ہم نے پوچھا کسی نے دوائی وغیرہ دی ؟ تو تیمار دار بیٹا ہماری طرف ایسے دیکھنے لگا جیسے ہم نے کوئی انہونی بات پوچھ لی ہو۔ عبدالرحمان جامی سے کون واقف نہیں ان کے عشق رسولﷺ کی اپنی مثال آپ ہے ۔ان کی بہت ساری نعتیں تمام عالم اسلام میں مشہور ہیں جیسے نسیما جانب طحا گزر کن زاحوالم محمد راہ خبر کن اور ایک اور شہرہ آفاق نعت کے دو اشعار دیکھیے گل از رخت آموختہ نازک بدن را بلبل ز تو آموختہ شیریں سخن را ( گلاب نے تیرے چہرے سے نزاکت کا درس لیا ہے۔بلبل نے تیرے تکلم سے شیریں کلای سیکھی ہے۔) جامی کا زمانہ پندرہویں صدی اور رومی کا تیرہویں کا ان کا کہنا ہے بزیر کنگرہ کبریاش مردان دانند فرشتہ صید و پیمبر شکار یزداں گیر اب جامی اور رومی والی جرات بھی نہیں اور اگر کوئی اس طرح جرات رندانہ کا مظاہرہ کرے تو دن میں تارے دکھانے کا عام بندوبست ہے۔ لہذا نیویں نیویں ہو کے ہلکی پھلکی طرز پر زندگی کرنے کا زمانہ زوروں پر ہے۔یہی وجہ ہے اگر آپ کا باپ بیمار ہے، قسمت یاوری کرے اسے ہسپتال میں ایڈمٹ کسی طرح کروا لیں تو سب رشتہ داروں کو فون پر خوشی خوشی بتانا پڑتا ہے، جی بالکل بالکل ہسپتال سے ہی بول رہا ہوں۔ابا جی کو ہسپتال میں داخل کروا دیا ہے۔باپ کا علاج اس سے کہیں آگے کی منزل ہے جو شاید اس کے باپ کے نصیب میں تھا بھی یا نہیں۔ہم اور تیمار دار بیٹا اور مریض سب ایک کھونٹے کی گائے کی مثال ہی تو ہیں۔ جس کھونٹے سے بندھے نہ کوئی ہم وہاں بندھ بندھ جائیں رومی یزداں گیر تھا، ہم ہیں تیرے ڈھور الہٰی