کیا آئینی ترمیم کسی عدالت میں چیلنج کی جا سکتی ہے؟
آصف محمود
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کی بات کر رہی ہیں۔ قانون کے ایک طالب علم کے طور پر میرے پیش نظر یہ سوال ہے کہ کیا کسی آئینی ترمیم کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے؟اس بات کا جواب آئین کے باب 11میں دیا گیا ہے۔ اس باب کاعنوان ہے : آئین میں ترمیم ۔اس باب کے آرٹیکل 239 کی ذیلی دفعہ 5 میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ پہلے اصل متن انگریزی میں پڑھ لیجیے ، پھر میں اس کا ترجمہ کر دیتا ہوں۔ لکھا ہے: No amendment of the Constitution shall be called in question in any court on any ground whatsoever. ( دستور میں کسی بھی ترمیم پر ، کسی بھی عدالت میں ، کسی بھی بنیاد پر ، چاہے وہ کیسی ہی وجہ کیوں نہ ہو ، کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا )۔ یہاں یاد ررہے کہ یہ بات آئین میں پہلے سے ہی لکھی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ حالیہ ترمیم میں یہ بات شامل کی گئی ہے۔ یعنی یہ وہ نکتہ ہے جو آئین کے ابتدائی مسودے میں موجود تھا اور 1973 سے لے کر آج تک موجود ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ آرٹیکل 239 کی ذیلی دفعہ 5 کے بعد ذیلی دفعہ6 کو بھی پڑھ لیجیے۔ لکھا ہے: For the removal of doubt, it is hereby declared that there is no limitation whatever on the power of the Majlis-e-Shoora (Parliament) to amend any of the provisions of the Constitution. (کسی شک کے ازالے کے لیے، بذریعہ ہذا ، قرار دیا جاتا ہے کہ دستور کے احکام میں سے کسی میں ترمیم کرنے کے مجلس شوری ( پارلیمان) کے اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے)۔یعنی پارلیمان کو آئین بناتے وقت یہ احساس تھا کہ آگے چل کر پارلیمان کے آئین میں ترمیم کے حق پر سوال ا ٹھائے جا سکتے ہیں ، اس لیے اس نے کسی بھی شک کو دور کرنے کے لیے آئین میں ہی وضاحت کر دی کہ دستور کے احکام میں سے کسی میں ترمیم کرنے کے مجلس شوری ( پارلیمان) کے اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اب ذرا ان دنوں کا خلاصہ مرتب کیجیے: 1۔ دستور میں ہونے والی کوئی ترمیم عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی۔ 2۔ کوئی بھی وجہ ہو ( چاہے آئین کا خود ساختہ بنیادی ڈھانچہ کسی کو خطرے میں لگے) ، چاہے وہ کیسی ہی وجہ کیوں نہ ہو ، ترمیم کو کسی بھی وجہ سے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔3۔ آئین میں ترمیم پارلیمان کا اختیار ہے۔4۔ اس اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ کیا آئین میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ بھی کوئی بات ہو سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کے ختیارات صرف اتنے ہیں کہ آئین سے متصادم کوئی قانون بنے تو وہ اسے دیکھ سکتی ہے کہ وہ قانون آئین کے روح کے مطابق ہے یا نہیں۔ اس کے پاس یہ اختیار بالکل بھی نہیں ہے کہ وہ پارلیمان کے آئین سازی کے حق کو محدود کر دے یا سپر پارلیمان بن جائے۔ ہمارے ہاں ایک تاثر یہ بنا دیا گیا ہے کہ پارلیمان تو بہت برے لوگوں پر مشتمل ہے اور اس کو راہ راست پر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی آئین سازی کو سپریم کورٹ شیر کی نظر سے دیکھتی رہے۔ یہ چیز اگر درست ہے تو پھر اس کو آئین میں شامل کر لیجیے ، وہاں لکھ دیجیے کہ ہماری پارلیمان نا قابل اعتبار ہے ، اس کی آئین سازی کی توثیق سپریم کورٹ سے کروائی جائے گی۔ موجودہ آئینی سکیم میں تو اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ایک بڑی دل چسپ دلیل دی جاتی ہے کہ فرض کریں کبھی پارلیمان آئین بنا دے آج سے ملک میں فلاں خاندان کی بادشاہت ہے تو کیا ہو گا؟ کیا اسے سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا ئے گا۔یہ دلیل الجہاد ٹرسٹ کیس میں بھی دی گئی ۔ اب اگر امکانی خطرات کی بنیاد پر ہی بات کرنی ہے تو فرض کریں کبھی پارلیمان ایسا فیصلہ کر لے اور عدلیہ ا س فیصلے کی ویسے ہی توثیق کر دے جیسے وہ پہلے غیر آئینی اقدامات کی توثیق کرتی آئی ہے تو پھر کیا ہو گا؟ ایک اہم نکتہ قانون کے استاد محترم ڈاکٹر عزیز الرحمن صاحب نے اٹھایا ہے کہ امکانی خطرات پارلیمان کی طرف زیادہ ہیں یا پھر عدلیہ کی طرف۔ پارلیمان میں تو چار پانچ سو لوگ فیصلہ ساز ہوتے ہیں، مختلف جماعتیں ہوتی ہیں ، انہوں نے عوام کو بعد میں منہ بھی دکھانا ہوتا۔ جب کہ عدالت میں چند جج ہوتے ہیں ، اور ریٹائر منٹ کے بعد بھی عوام کو کوئی جواب دہ نہیں ہوتا۔ تو بڑی غلطی کا امکان کس طرف زیادہ ہے؟اس صورت میں احتیاط کا تقاضا کیا کہتا ہے بلکہ کیا کچھ کہتا ہے؟ ہمارے ہاں بد قسمتی سے پارلیمان نے کوئی اچھی روایات نہیں چھوڑیں ۔ قانون سازی اور آئین سازی کے عمل تک پر سوال اٹھتے رہے لیکن کیا اس کا حل یہ ہے کہ منتخب پارلیمان کے آئین سازی کے حق کو چند ججوں کی تائید سے مشروط کر کے محدود کردیا جائے؟ سامنے کی حقیقت تو یہ ہے کہ عدلیہ نے بھی کوئی اچھی روایات نہیں چھوڑیں۔ کبھی نظریہ ضرورت دیا ، یہ عدلیہ ہی تھی جس نے پاکستان بننے کے سات سال بعد فیصلے میں لکھا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک نہیں ہے اور اس کی پارلیمان کے فیصلے کی برطانوی بادشاہت کے نمائندے کے سامنے کوئی حیثیت نہیں اور مزید یہ لکھا کہ کوئی سمجھتا ہے پاکستان خود مختار ملک ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اسی عدلیہ نے وزیر اعظم کو پھانسی دی۔ فرد واحد کو آئین میں ترمیم کو وہ اختیار دیا جو اس کے اپنے پاس بھی نہ تھا۔ اس صورت میں کرم فرمائی کا نشانہ صرف پارلیمان کیوں؟ پارلیمان کی غلطی کا علاج پارلیمان سے ہی آنا چاہیے۔ بالکل ایسے ہی جیسے حالیہ آئینی ترمیم کی راہ میں مولانا فضل الرحمن حائل ہوئے ۔ شعور اجتماعی سے بڑا چک اینڈ بیلنس کوئی نہیں۔تاہم پھر بھی کسی کو شوق ہے کہ ترمیم کو عدالت میں چیلنج کرنا ہی کرنا ہے تو کر کے دیکھ لیجیے۔ طاقت کا توازن اب وہ نہیں رہا کہ افتخار چودھری صاحب کے سامنے پوری پارلیمانی کمیٹی سہم جائے اور سہمی سمٹی پارلیمان انیسیوں ترمیم لے آئے کہ پارلیمان کی کیا اوقات ، بس حضور کا اقبال بلند ہو ۔