کیا بھارت یاسین ملک سے وفاداری کا مطالبہ کر سکتا ہے؟
آصف محمود
بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کیا بھارت یاسین ملک سے وفاداری کا مطالبہ کر سکتا ہے اور کیا یاسین ملک کے خلاف اس جرم میں کوئی مقدمہ قائم ہو سکتاہے یا انہیں سزا دی جا سکتی ہے کہ وہ بھارت کے وفادار نہیں اور فریڈم فائٹر ہیں یا رہے ہیں؟ ہیگ کنونشن کے آرٹیکل 45کے مطابق اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔مختصر سے اس آرٹیکل میں بہت واضح طور پر لکھا ہے کہ مقبوضہ علاقہ جات کے شہریوں سے قابض قوت کے ساتھ وفاداری کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا ۔ یاسین ملک بھارت کے شہری نہیں ہیں۔ وہ مقبوضہ کشمیر کے شہری ہیں۔ انٹر نیشنل لا کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کوئی ملک کسی مقبوضہ علاقے پر حق ملکیت کا دعوی نہیں کر سکتا۔ یہ اصول 1928 ء کے معاہدہ پیرس میں طے ہو چکا اور اسی کا اعادہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی ذیلی دفعہ 4 میں کیا گیا ہے۔ انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے اپنے 4 اگست 2004ء کے اعلامیے میں بھی اسی اصول کا اعادہ کیا کہ کسی علاقے پر قبضہ کر لینے سے قابض قوت اس علاقے کی مالک نہیں بن جاتی۔ مقبوضہ علاقہ ہمیشہ مقبوضہ ہی رہے گا۔ اس نکتے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ا ور سلامتی کونسل کی متعدد قراردادیں بھی موجود ہیں ۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے کمیشن UNCCP نے بھی سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی کانفرنس میں یہی اصول طے کیا تھا۔ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ریاست مقبو ضہ بھی ہو جائے تب بھی وہ اپنی حیثیت تبدیل نہیں کرتی ۔ یعنی جیسے وہ قبضے سے پہلے تھی اب بھی اس کی قانونی حیثیت وہی ہو گی۔ وہ قابض قوت میں ضم نہیں ہو جائے گی اور اس کا تشخص ختم نہیں ہو جائے گابلکہ یہ قبضہ ناجائز تصور ہو گا اور ریاست کا وجود قائم رہے گا۔ یہ قبضہ جتنا عرصہ بھی جاری رہے گا ، ناجائز رہے گا اور اس سے مقبوضہ ریاست کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی اصول کی بنیاد پر سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر674میں عراق کا کویت پر قبضہ ناجائز قرار دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسی نکتے کو بنیاد بناتے ہوئے آذر بائیجان کے علاقے پر قبضے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مزید یہ کہ جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد نمبر 3061 میں اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے گینی بسائو پر پرتگال کے قبضے کو ناجائز قرار دیا تھا۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو جبری طور پر انڈین یونین کا حصہ قرار دے لیا ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اب مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ بن گیا ہے ا ور اس کے شہریوں کے لیے بھارت کا وفادار رہنا لازم ہے۔انٹر نیشنل لا بہت واضح ہے کہ کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ کشمیری خود کریں گے اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہونے والے استصواب رائے میں کریں گے۔ بھارت یک طرفہ اور جبری طور پر انٹر نیشنل لا کو پامال کر کے مقبوضہ کشمیر کا بھارت کا حصہ نہیں بنا سکتا۔ یہ درست کہ یاسین ملک نے بھارتی عدالت کے رو برو فریڈم فائٹر ہونے کا اعتراف کیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اس میں غلط کیا تھا؟ نیز یہ کہ اس اعتراف کی بنیاد پر دنیا کے کس قانون کے تحت سزا سنائی جا سکتی ہے؟ کیا یہ ایک ناقابل تردید حقیقت نہیں کہ مقبوضہ علاقہ جات کے لوگوں کو فریڈم فائٹر بننے کی اجازت اقوام متحدہ کے قوانین نے دے رکھی ہے اور اگر وہ بھارتی قبضے کے خلاف فریڈم فائٹر بنتے ہیں اور آزادی کی جدوجہد کرتے ہیں تو بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ کوئی جرم نہیں بلکہ یہ ایک جائز اقدام ہو گا۔ 1949 ء کے جنیوا کنونش کے ایڈیشنل پروٹوکول 1کے آرٹیکل 1 کی ذیلی دفعہ 4 میں کشمیریوں کے اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔یہ پروٹوکول بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مسلح تصادم اور جنگوں کے متاثریں کے تحفظ سے متعلق ہے اور اس کے آرٹیکل 1 کی ذیلی دفعہ 4 میںکہا گیا ہے کہ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے اگر کوئی کسی غاصب قوت سے لڑ رہا ہے تو اس مسلح تصادم کو بھی دیگر جنگوں کی طرح (انٹرنیشنل آرمڈ کانفیلکٹ) بین الاقوامی تنازعہ سمجھا جائے گا۔اہم نکتہ یہ ہے کہ اسے دہشت گردی نہیں تصور کیا جائیگا بلکہ یہ بین الاقوامی تنازعہ قرار پائیگا۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 3314بھی کشمیریوں کو مسلح جدوجہد کا حق دیتی ہے۔اس قرارداد میں ’جارحیت‘ کے لفظ کی تشریح کرتے ہوئے آرٹیکل 7 میں کہا گیا کہ حق خود ارادیت اور غاصب قوت سے آزادی کے لیے جو جدوجہد کی جا رہی ہو گی اس پر اس قرارداد کا اطلاق نہیں ہو گا یعنی اسے ناجائز تصور نہیں کیا جائے گا۔ یہ پوری قرارداد سیاسی جدوجہد سے متعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق جنگ اور جارحیت سے ہے۔اس لیے قرارداد میں جو بھی اصطلاح استعمال کی جائے گی اسے سیاق و سباق میں دیکھنا ہو گا۔ جمہوری جدو جہد کی تو ویسے بھی اجازت ہے اور اس کے لیے جنرل کو اتنے ترد میں پڑنے کی کیا ضرورت تھی؟جو چیز پہلے ہی سے جائز تھی اسے جائز قرار دینے کے لیے جنرل اسمبلی کو پوری قرارداد لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ پھر بھی اگر کوئی اختلاف یا ابہام موجود تھا تو جنرل اسمبلی نے اسے بھی دور کر دیا۔3 دسمبر 1982 ء کو جنرل اسمبلی میں ایک اور قرارداد (نمبر 37/43) منظور کی گئی اور اس کی کلاز 2 میں نہایت واضح انداز سے لکھ دیا کہ حق خود ارادیت اور غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدو جہد ایک جائز اقدام تصور ہو گا۔ یہ قرارداد اتنی واضح ہے کہ اس کے بعد کسی اگر مگر کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ مقبوضہ علاقے کا شہری ہونے اور بھارت کے رحم و کرم پر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ یاسین ملک کے انسانی حقوق ساقط ہو گئے ہیں۔ ہیگ ریزولیوشنز کے آرٹیکل 43 کے مطابق ، قابض قوت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کے شہریوں کی صحت اور سلامتی کو یقینی بنائے۔یاسین ملک کو مسلمہ انسانی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور انہیں دھیرے دھیرے قتل کیا جا رہا ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والا سلوک نہ صرف حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ قابض قوت کی جانب سے جنگی جرائم کے زمرے میں بھی آتا ہے۔پاکستانی دفتر خارجہ نے آج یاسین ملک کے لیے آواز اٹھائی ، بہت اچھا لگا۔ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے بھارتی جیلوں میں قیدیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ان سب کے لیے آواز اٹھانا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ کشمیر کو جنوبی ایشیا کا فلسطین بنایا جا رہا ہے ۔ ٭٭٭٭٭