کیا صوبے پی آئی اے کو چلاسکیں گے؟
آصف محمود
جس پی آئی اے کو وفاق نہیں چلا پا رہا ، کیاا س پی آئی اے کو پنجاب یا کے پی کی حکومتیں چلا پائیں گی؟ اگر چہ پنجاب حکومت کی ترجمان نے تو واضح کر دیا کہ پی آئی اے خریدنے کی خبروں میں صداقت نہیں تاہم اس کی یہ وضاحت بھی حکومت کی حد تک تو ہے لیکن حکمران جماعت کی فیصلہ سازی پر اٹھتے سوالات کا اس وضاحت میں کوئی جواب نہیں۔یہ بات دوسرے تیسرے درجے کی قیادت نے نہیں بلکہ خود جناب نواز شریف صاحب نے کہی ۔پنجاب حکومت کی وضاحت کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی نجکاری پالیسی کیا ہے؟ میاں نواز شریف اس جماعت کے سربراہ ہیں۔ وہ اگر بین السطور ہی ایسی کوئی بات کہہ دیں کہ پنجاب حکومت کو پی آئی اے خرید لینا چاہیے تو اس میں جہان معنی ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جماعت کے پاس اقتدار ہو اور وہ جماعت معاشی معاملات میں یکسو نہ ہو۔ یعنی وفاق میں وہ نجکاری کر رہی ہو اور صوبے میں وہ اس کے برعکس امکانات پر غور کرتی پائی جائے ۔ پنجاب حکومت کی جانب سے تو وضاحت آ گئی لیکن حکمران جماعت کی جانب سے موقف آنا چاہیے کہ معیشت کے باب میں اس کا ویژن کیا ہے؟ نجکاری کرنی چاہیے یا نہیں؟جو مشورہ حکمران جماعت کے سربراہ پنجاب حکومت کو دے رہے ہیں ویساہی مشورہ وہ وفاق کی حکومت کو کیوں نہیں دے رہے؟ کیا وہ صرف پنجاب حکومت کواون کرتے ہیں ، وفاق کو نہیں؟اگر ہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب اس ائیر لائن کو چلا سکتا ہے توپھر وفاق اس کو کیوں نہیں چلا سکتا ؟ دوسری جانب کے پی کی حکومت ہے جو ابھی تک میدان میں موجود ہے اور اس نے وفاقی وزارت نجکاری کو باقاعدہ خط لکھ دیا ہے کہ وہ پی آئی اے کو خریدنا چاہتی ہے۔ خیبر پختونخواہ بورڈ آف انوسٹمنٹ نے باقاعدہ پیش کش کی ہے کہ وہ دی گئی بولی سے زیادہ قیمت پر پی آئی اے خریدنے کو تیار ہیں۔ اس پیش کش کا حاصل وہی سوا ل ہے کہ خرید تو لیں گے ، مگر وہ اسے کیسے چلاپائیں گے۔کے پی حکومت سے پوچھا جانا چاہیے کہ کہ اگر معیشت کا میدان سیاست کا اکھاڑا نہیں بنا دیا گیا اور وہ صرف پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنا چاہتی بلکہ پی آئی اے کی خریداری میں سنجیدہ ہے تو وہ اسے خریدے گی کہاں سے اور چلائے گی کیسے؟ کے پی کے وزیر خزانہ نے اس کا جواب دیا تو ہے لیکن کیا وہ تسلی بخش ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس 100 ارب پڑے ہیں اور وہ ان میں سے پی آئی اے کو خریدنے کے لیے رقم دے سکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے پاس پڑے روپوں کا یہ مصرف درست ، قانونی اور مناسب ہے؟ نیز یہ کہ اس رقم کے بھاری حصے سے پی آئی اے خریدنے کے بعد صوبے کو چلانے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟کیا اس ضمن میں کوئی ہوم ورک کیا گیا ہے یا ہوا میں تیر چلا دیا گیا ہے؟ ہوم ورک کیا گیا ہے تو اس کی تفصیل کیا ہے؟ خزانے میں پڑی رقم سے پی آئی خرید تو لیں گے ، پھر کیا کریں گے؟ پی آئی اے کیسے چلائیں گے؟ اور صوبہ کیسے چلائیں گے؟ خزانے میں بچ جانے والی رقم سے پی آئی اے چلائیں گے یا صوبہ چلائیں گے؟صوبے کے پاس اس وقت بھلے 100 ارب روپے پڑے ہوں لیکن کیا یہ سرپلس ہیں؟ کیا یہ فالتو رقم ہے جو ادھر ادھر خرچ کر کے کچھ ایڈونچرز کیے جا سکتے ہیں یا یہ رقم صوبے کی معاشی لائف لائن ہے اور صوبے کے جملہ اخراجات یہاں سے پورے کیے جانے ہیں؟ دستیاب اعدادو شمار کے مطابق کے پی صوبے کی سالانہ آمدن 93 ارب روپے ہے۔ یعنی جو رقم اس وقت صوبے کے پاس موجود ہے جس کے سہارے پی آئی اے لینے کی بات کی جا رہی ہے اس سے اس صوبے کے سال بھر کے اخراجات پورے ہونے ہیں۔ پی آئی اے خریدنے کے بعد یہ اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے؟ کیا پی آئی اے کے منافع سے پورے ہوں گے؟ منافع تو بعد کی بات ہے ، پہلے تو پی آئی اے کو چلانے کے لیے پیسے درکار ہوں گے۔ وہ کہاں سے آئیں گے۔ کیا پی آئی اے کی خریداری کے بعد خزانے میں بچ جانے والی ساری رقم پی آئی اے چلانے پر لگا دی جائے گی اور صوبے سے کہا جائے گا کہ وہ اب نک دا کوکا تلاش کرے؟یاد رہے کہ پی آئی کے سالانہ اخراجات کے پی کی سالانہ آمدن سے دو گنا زیادہ زیادہ بتائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں تبدیلی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ معاشی معاملات کے ساتھ ساتھ کچھ سیاسی ، انتظامی اور قانونی سوال بھی ہیں۔ ایسا کوئی فیصلہ فرد واحد تو کر نہیں سکتا ، یہ فیصلہ حکومت کر سکتی ہے اور حکومت کا مطلب ہوتا ہے ، وزیر اعلی اور اس کی کابینہ۔ اب جب کہ کے پی حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر وفاقی وزارت کو خط لکھ دیا گیا ہے کہ وہ پی آئی اے کو خریدنا چاہتی ہے تو سوال یہ ہے کیا کابینہ کی اجازت سے یہ خط لکھا گیا ہے؟ کیا کابینہ کے سامنے ایسی کوئی سمری پیش کی گئی اور کیا کابینہ نے اس کی منظوری دی؟ منظوری دی تو کب دی؟ تفصیلات کیا ہیں؟ کابینہ کی منظوری کے بغیر کیا کے پی حکومت ایسے معاملات میں خط لکھ سکتی ہے؟ کے پی حکومت کی میانہ روی دیکھیے ، چلی ہے پی آئی اے خریدنے اور حالت یہ ہے کہ صوبے میں بیس یونیورسٹیاں بند ہونے کی خبریں آ رہی ہیں کیونکہ ان کو چلانے کے لیے وسائل نہیں۔ صوبہ اپنی آمدن کے لیے 95 فی صد تک وفاق پر انحصار کرتا ہے۔ صوبے میں گڈ گورننس کی حالت یہ ہے کہ 2030 تک اس کے ذمے 2555 ارب کا واجب الاداا قرض ہو جانا ہے۔اس وقت بھی یہ صوبہ 632 ارب روپے کا مقروض ہے۔اور میانہ روی دیکھیے ، خزانے میں پڑے 100 ارب کے طنطنے پر یہ پی آئی اے خریدنے جا رہے ہیں۔ انتظامی اہلیت یہ ہے کہ ایک میٹرو سروس ڈھنگ سے نہیں چل پائی اور ستاروں پہ کمند ڈالنے کو اب انہیں پی آئی اے چاہیے۔