کیا یہ سیاست کا نیا اسلوب ہے؟
آصف محمود
یہ جناب گنڈا پور کی میانہ روی ہے کہ وہ خالی جیب کے ساتھ 12اضلاع میں سے گزر کر پشاور پہنچ گئے ، ورنہ وہ 12بر اعظموں سے گزرنے کا دعوی ٰکر دیتے تو کس میں انہیں جھٹلانے کی ہمت ہوتی ۔ سوالات کچھ اور ہیں اور اگر تحریک انصاف کے پاس اپنی گوناگوں احتجاجی مصروفیات میں سے وقت نکل سکے تو ان سوالات پر غور کرنا چاہیے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف میں کارکنان کا کیا مقام ہے۔ کارکنان کو بتائے بغیر وزیر اعلی غائب ہو گئے ، کیا ایسا کرتے وقت انہوں نے سوچا کہ کارکنان کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ کبھی ایسا بھی ہوا کہ قیادت رجز پڑھتے ہوئے آئے اور کارکنان کو سڑکوں پر مار کھاتا چھوڑ کر پہلے کے پی ہائوس میں جا کر چائے پینے لگ جائے اور پھر ایسی غائب ہو کہ کچھ پتا ہی نہ چلے کہاں گئی؟سیاست کا یہ اسلوب پہلی بار دیکھا جا رہا ہے۔ قاضی حسین احمد کارکنان کو لے کر نکلے تو سب سے آگے تھے ، پولیس نے تشدد کیا تو اس کا سامنا کیا۔ بزرگی میں لاٹھیاں کھائیں مگر کارکنان کو تنہا نہیں چھوڑا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے لانگ مارچ کیا تو لاٹھی چارج برداشت کیا مگر کارکنان کے سا تھ رہیں۔ یہ نیا روپ اور نیا انقلاب ہم نے دیکھاکہ کارکن لاچار حالت میں سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں اور قیادت ٹوئٹر پر دداد شجاعت دے رہی ہے کہ غریب کے بچو تم لڑو تاکہ انقلاب آ سکے۔بارہ بر اعظم ، معاف کیجیے بارہ اضلاع سے گزرتے ہوئے کیا ایک لمحے کے لیے بھی وزیر اعلی نے سوچا کہ اپنے کارکنان تک کوئی پیغام ہی پہنچا دیا جائے کہ وہ بھی واپس چلے جائیں۔ کارکنان کو یہی کہا جاتا رہا کہ سڑکوں پر رہنا ہے اور خود پشاور جا پہنچے۔ کارکنان کسی بھی جماعت کا سرمایہ ہوتے ہیں اور قیادت کی آخری وقت تک یہ کوشش ہوتی ہے کہ کارکنان کو مہم جوئی سے بچا کر رکھے۔ تحریک انصاف نے پہلی بار یہ انداز متعارف کرایا ہے کہ اپنے کارکن کو مسلسل احتجاج کی حالت میں رکھا ہے۔ وہ بے چارا باہر نکلتا ہے ، مار کھاتا ہے ، پولیس سے لڑتا ہے ، مقدمات بھگتتا ہے لیکن قیادت کے چائو ابھی بھی پورے نہیں ہو رہے۔ وہ اسے دم ہی نہیں لینے دے رہی ۔ ہمہ وقت احتجاج ، ہر دم احتجاج۔ ابولکلام آزاد نے کہا تھا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ سینے میں دل بھلے نہ ہو ، آنکھ میں وضع تو رہنی چاہیے تھی۔ کیا وہ بھی نہ رہی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس احتجاج میں تحریک انصاف کی قیادت کہاں تھی؟نوجوانوں کا استحصال کر کے انہیں ریاستی قوت سے الجھانے والے خود کہاں تھے؟ حادثاتی وزیر اعلی عثمان بزدار سے لے کر حادثاتی وکلا قیادت تک ، سب کدھر تھے۔ کون سا رہنما تھا جو اپنے بچوں سمیت اس احتجاج کا حصہ بناہو؟ کے پی کی حدود میں فوٹ شوٹ ایک بالکل الگ معاملہ ہے کہ وہاں تو ان کا اپنا اقتدار تھا ۔ سوال یہ ہے کہ آگے جہاں میدان سجا وہاں قیادت کہاں تھی؟ کوئی بیرون ملک بیٹھ کر بھاشن دے رہا تھا تو کوئی گھر میں ٹوئٹر پر کموتان النچک بنا ہوا تھا۔ نیا تماشا تحریک انصاف کے ساتھ یہ ہوا کہ حکمت کے تحت کچھ ایسے وکلا کو قیادت کے مناصب دیے گئے جو عام حالات میں کونسلر نہ بن سکیں۔ان کا دائو لگ گیا ہے۔ وہ اب اعلان عام فرما رہے ہیں کہ حکمت کا تقاضا تھا وہ گھر سے نہ نکلتے ورنہ ان کے لیے بڑا آسان تھا ڈی چوک پر جانا اور گرفتاری دے دینا۔ کیا سیاسی دنیا میں اس سے ناروا کام بھی ہو سکتا ہے کہ قیادت مزے میں بیٹھی رہے اور کارکنان کو مسلسل اشتعال دلاکر سڑکوں پر احتجاجی حالت میں رکھا جائے۔ وہ احتجاج کرنے اسلام آباد پہنچیں تو کوئی انہیں بتانے والا ہی نہ ہو کہ اب کیا کرنا ہے۔ وہ گرفتار ہو جائیں تو کوئی ان کی خیر خبر لینے والا نہ ہو۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا منطقی سی بات ہے کہ آپ احتجاج پر نکلے تو آپ کے انتظامات اور تیاریاں کیا تھیں؟ صرف ٹکراو مقصود تھا ، یا کوئی حکمت عملی بھی تھی؟ کیا کوئی کمیٹی بنی تھی جو ان معاملات کو دیکھ رہی تھی یا بغیر تیاری اور پلاننگ کے دھاوا بول دیا گیا کہ بس ٹکرائو ہو جائے اور کام بن جائے؟ قیادت اور کارکنان میں فرق یہی ہوتا ہے کہ قیادت خود کو بھی تھامتی ہے اور کارکنان کو بھی۔ لیکن اگر قیادت ہی یوں عدم توازن کا شکار ہو جائے کہ شدت جذبات میں اس کا قادرالکلامی جے شنکر کو دعوت دیتی پائے جائے تو یہ ایک سیاسی جماعت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اس کی زمام کار کن لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ تیسرا سوال تحریک انصاف کے احتجاج کی ٹائمنگ کا ہے۔ جب بھی کوئی اہم مہمان پاکستان آ رہا ہو تحریک انصاف احتجاج شروع کر دیتی ہے۔یہ معاملہ اب کافی پریشان کن ہو گیا ہے اور اس سے صرف نظر کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ سیاست میں دھوپ چھائوں آتی رہتی ہے اور یہ سب پر آتی ہے۔ یہ معلوم انسانی تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں کہ کوئی سیاسی رہنما جیل گیا ہو یا کسی کے خلاف عدم اعتماد آئی ہو۔ یہاں پہلے بھی لوگ جیلوں میں جاتے رہے ہیں اور عدم اعتماد کے تردد کے بغیر لوگوں کی حکومتیں ختم ہوتی رہی ہیں۔ ان ساری چیزوں کا اہل سیاست نے حکمت سے مقابلہ کیا ہے۔ ریاست کے مفادات دائو پر لگا کر نہیں۔ تاہم اگر کسی کو اصرار ہے کہ یہ سیاست نہیں جہاد ہے اور وہ حصول اقتدار کے لیے نہیں بلکہ ملک کو حققیقی آزادی دلانے نکلے ہیں اور یہ جدوجہد اتنی مقدس ہے کہ سب کو سب کچھ چھوڑ کر اس میں شامل ہو جانا چاہیے تو پھر انہیں اس جدوجہد میں قیادت کو اپنے فرزندان کرام کو بھی شمولیت کی سعادت کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ ادھر لاوارث کارکنان پولیس کی حراست میں اوندھے پڑے ہیں ، ادھر وزیر اعلی صاحب کی دستار بندی ہو رہی ہے جیسے 12 بر اعظم فتح کر کے آئے ہوں۔حیرت ہے وہاں کی اسمبلی میں کسی نے اپنے سورما سے یہ نہیں پوچھا کہ جن کارکنان کو ساتھ لے کر گئے تھے ، انہیں کہاں چھوڑ آئے ہو۔ وزارت اعلیٰ کے منصب کی چھائوں میں رستم بننا آسان ہے ورنہ اسی اسلام آباد کی سڑکوں پر پولیس کے آگے جناب وزیر اعظم کو بھاگتے سارے جہان نے دیکھا تھا۔ سادہ لوح معاشرے میں اہل ہنر کی مہارت دیکھ کر حسن حمیدی یاد آتے ہیں: وہ دور اب دُور تو نہیں ہے کہ وقت جب منصفی کرے گا کبھی تو تاریخ کی عدالت میں تم بھی آؤ گے ہم بھی آئیں گے