کیا یہ ہماری تقدیر ہے؟
قادر خان یوسف زئی
فلسطین ایک ایسے المیے کی داستان ہے جہاں عوام کو دہائیوں سے ظلم و ستم کا سامنا ہے ، ان کی جدوجہد کو ہمیشہ کچلنے کی کوشش کی گئی۔ یہ جنگ صرف ہتھیاروں یا میزائلوں کی نہیں بلکہ تشخص، انسانیت، اور بقا کی ہے۔حالیہ واقعات میں جب فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف کارروائی کی تو سوالات اٹھائے گئے کہ ایک ایسی طاقتور ریاست کے خلاف کیوں لڑا جارہا ہے جو جدید ترین ٹیکنالوجی اور فوجی برتری رکھتی ہے؟ مگر اس سوال کے پیچھے ایک اہم حقیقت پوشیدہ ہے۔ فلسطینی عوام نے برسوں ظلم برداشت کیا، ان کے بچے قتل ہوئے، ان کے گھروں کو برباد کیا گیا، اور ان کی زندگی کو جہنم بنایا گیا۔ دنیا خاموش رہی، گویا ان کی زندگیاں اہم نہیں۔ وہ برسوں سے مررہے ہیں اور دنیا کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ آج بھی وہ مررہے ہیں، لیکن ایک فرق ہے، آج دنیا دیکھ رہی ہے، سوشل میڈیا کی بدولت ہر تصویر اور ہر کہانی دنیا کے سامنے ہے۔ اور شاید یہ وہی شعور ہے جو ان کے لیے کم از کم امید کی ایک کرن بن سکتا ہے۔ یہ جنگ صرف زمین کا نہیں بلکہ وجود کا مسئلہ ہے۔ ایک ایسی قوم جسے دہائیوں سے اپنے حقِ خودارادیت سے محروم رکھا گیا، اب اپنی آواز کو دنیا تک پہنچا رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اسرائیل کے مقابلے میں ان کی تکنیکی اور عسکری حیثیت کمزور ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں کے تحفظ کے لیے لڑ رہے ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا ایران کے خلاف حملے کی منظوری دینا ایک اور سنگین پیشرفت ہے جو پورے خطے کو آگ میں جھونک سکتی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات کے قریب ہونے کی بنا پر یہ حملہ سیاسی مقاصد کے تحت بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اس کے نتائج پورے خطے کو تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ایرانی حکومت نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے حملہ کیا تو وہ فیصلہ کن جواب دیں گے۔ ایران کا فوجی اور اقتصادی دباؤ پہلے ہی عروج پر ہے، کسی بھی حملے کی صورت میں وہ پورے خطے کو جوابی کارروائیوں کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی یہ صورتحال ایک بار پھر ثابت کرتی ہے کہ اس خطے کی سیاست اور جنگیں عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں۔ یہاں کے عوام برسوں سے جنگ، بھوک اور دہشت کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ہر دن ان کے لیے موت کا پیغام لے کر آتا ہے، ہر نیا تنازع ان کے لیے مزید مشکلات اور مصائب کا باعث بنتا ہے۔ان حالات میں یہ سوچنا لازم ہوچکا ہے کہ آیا دنیا ان انسانوں کی تکالیف کا کوئی حل تلاش کرنے کے لئے تیار ہے یا نہیں؟ کیا عالمی برادری صرف اس وقت حرکت میں آتی ہے جب اسے اپنے مفادات کو خطرہ لاحق ہو؟ فلسطین اور ایران جیسے مسائل صرف علاقائی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہیں، جن کا اثر پوری دنیا پر پڑتا ہے۔ دنیا کو اب اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ فلسطینیوں کی جدوجہد کوئی عارضی جنگ نہیں بلکہ ایک طویل المیہ ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسانیت کو سیاست اور طاقت کی لڑائی سے بالاتر ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ فلسطینی عوام کی نسل کشی اور خطے میں نئی جنگوں کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو ایک مضبوط اور انسانیت پسند موقف اپنانا ہوگا۔اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی خبروں نے پورے مشرق وسطیٰ میں ہلچل مچا دی ہے، اس پیش رفت نے پہلے سے ہی جلتے ہوئے فلسطین کے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہے۔ایران پر حملہ نہ صرف اس خطے کے جغرافیے کو بدل سکتا ہے بلکہ اس کے دور رس اثرات مظلوم فلسطینی عوام پر بھی پڑیں گے، جو پہلے ہی دہائیوں سے ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد میں مبتلا ہیں۔ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو یہ عمل صرف ایران تک محدود نہیں رہے گا۔اگر خطے میں ایک بڑی جنگ چھڑ گئی تو فلسطینیوں کی حالت مزید ناگفتہ بہ ہوگی۔اس وقت جب فلسطین میں معصوم بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو میزائلوں اور بمباری کا سامنا ہے، ایک نئی جنگ انہیں مزید تباہی کی طرف لے جائے گی۔ دنیا کے سامنے ان کے جسموں کے ٹکڑے، ان کی چیخیں اور ان کے خوابوں کا ملبہ بکھرا پڑا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، عالمی برادری خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ فلسطینی عوام، جو پہلے ہی ایک انسانی بحران میں زندگی گزار رہے ہیں،نئی جنگ میں اور زیادہ بے یار و مددگار ہو جائیں گے۔ اس پورے منظرنامے میں مظلوم فلسطینی کہاں کھڑے ہوں گے؟ ۔تصور کیجیے کہ وہ فلسطینی بچہ جو آج غزہ کی تنگ گلیوں میں بمباری سے بچنے کے لیے اپنی ماں کی آغوش میں پناہ لے رہا ہے، کل کو ایک نئی جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ اس کے سامنے کوئی مستقبل نہیں، کوئی محفوظ جگہ نہیں، صرف موت اور تباہی کا سایہ۔ ان کی آنکھوں میں بس ایک ہی سوال ہوگا’’کیا یہ ہماری تقدیر ہے؟‘‘ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو الفاظ سے بالاتر ہے۔ فلسطینی عوام ایک ایسی جنگ کے میدان میں ہیں جہاں ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا، نہ عزت، نہ امن، نہ سکون، نہ مستقبل۔ ان کی سرزمین خون میں نہائی جا رہی ہے، وہ خود ایک نہ ختم ہونے والی قیامت کا سامنا کر رہے ہیں۔ جب دنیا کے بڑے ممالک اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے، فلسطینی عوام اس تمام کھیل میں محض ایک پیادے کی طرح کچلے جائیں گے۔ یہ سوچ کر دل لرز جاتا ہے کہ وہ فلسطینی جو پہلے ہی اپنی سرزمین پر غیر محفوظ ہیں، وہ نئی جنگ میں کہاں جائیں گے؟ کہاں پناہ لیں گے؟ دنیا کی بے حسی ان کے لیے ایک اور موت کا پیغام ہوگی، جہاں کوئی ان کی مدد کے لیے آگے نہیں آئے گا۔فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض ایک انسانی المیہ نہیں، بلکہ ایک اجتماعی جرم ہے جس میں دنیا کی خاموشی بھی شامل ہے۔