2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

گرومنگ گینگز اور پاکستانی ڈائسپورا

اشرف شریف
20-01-2025

برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو،وہاں کی آبادی کا صرف 2% ہونے کے باوجود، گرومنگ گینگز کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں غیر متناسب و غیر مناسب طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔اس سے ایک غیر منصفانہ بیانیہ تیار کیا جاتا ہے جو اسلامو فوبیا اور نسلی تعصب کو بڑھاتا ہے۔یہ تاثر ابھارا جاتا ہے کہ گویا پاکستانی وہاں جرائم کرتے اور جرائم کے پس پردہ کردار ادا کرتے ہیں۔2020 میں، نیشنل کرائم ایجنسی نے مجرمانہ سرگرمیوں، مزدوری اور جنسی سرگرمیوںکو برطانیہ میں استحصال کی سب سے عام شکل قرار دیا۔ این سی اے نے برطانیہ، رومانیہ، چین، ویتنام اور البانیہ کے باشندوںکو سب سے زیادہ جرائم میں ملوث قرار دیا۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ کے تمام قحبہ خانوں میں سے 75% سے زیادہ پر البانیوں کا کنٹرول ہے۔کوکین کی درآمد اور فروخت پر اب بڑی حد تک البانیائی منظم جرائم کے گروہوں کا غلبہ ہے۔ برطانیہ کی جیلوں میں غیر ملکی قیدیوں کے سب سے بڑے گروپ کے طور پر البانویوں نے پولس کو بے بس کر دیا ہے۔پولش گینگ برطانیہ کے اب تک کے سب سے بڑے جدید غلامی کے مجرم تھے۔ جنہوں نے سینکڑوں کمزور افراد کا استحصال کیا۔ویلش حکومت کے ایک مطالعہ کے مطابق، برطانیہ میں نفرت پر مبنی جرائم میں ملوث افرادکی اکثریت نوجوان سفید فام مردوں کی ہے۔ مساوات اور انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مجرم بے روزگار نوجوان سفید فام مرد ہوتے ہیں جن کے ریکارڈ میںسزائیں ہوتی ہیں۔2011 کے بعد سے، برطانیہ میں "گرومنگ" کے بارے میں وسیع پیمانے پر بحث چھڑی ہوئی ہے جسے 'جنوبی ایشیائی جنسی گروہوں' سے منسلک ایک نئے جرم کے خطرے کے طور پر دکھایا جا رہا ہے ۔پرپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے نوجوان سفید برطانوی لڑکیوں کو جنسی زیادتی کے لیے تلاش کرتے ہیں، خاص طور پر، پاکستانی شناخت والے مردوں کو آن سٹریٹ گرومنگ سرگرمیوں سے منسلک کیا گیا تھا (گورے مردوں کو آن لائن کیسز سے منسلک کیا گیا تھا)۔ یہ مسئلہ اس لحاظ سے کئی بار زیر بحث آ چکا ہے کہ برطانیہ میں بعض این جی اوز نے پاکستانیوں کو ٹارگٹ کر رکھا ہے۔وہ کسی پاکستانی کو آن لائن ٹریپ کرتے ہیں، اسے باور کراتے ہیں کہ ان سے مخاطب لڑکی بالغ ہے اور اپنی مرضی سے تعلق استوار کرنا چاہتی ہے،جونہی یہ نا سمجھ نوجوان ان کے ہتھے چڑھتے ہیں یہ ان پر نابالغ لڑکیوں کے ساتھ جنسی تعلق کا مقدمہ بنوا کر انہیں سزا اور ڈیپورٹ کر دیتے ہیں۔ اس مسئلے کی مسلسل موجودگی و تشکیل اکثر حقائق پر مبنی شواہد کو نظر انداز کرتی ہے اور اس کے بجائے پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دیتی ہے، جس سے انتہائی دائیں بازو کے گروہوں اور کچھ بد خواہوں کے مفادات کی تکمیل ہوتی ہے۔ پاکستانیوں کو متاثر کرنے والے بیانیے ڈائاسپورا کمیونٹیز کے اندر موجود داخلی نا اتفاقی اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔یہ بیانئیے ممکنہ طور پر وسیع تر جغرافیائی سیاسی حکمت عملیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔کئی ریاستیں اپنے اوورسیز کو نا مناسب طور پر دوسروں کے خلاف استعمال کرنے لگتی ہیں۔ اگرچہ پاکستانی ریاست یہ تسلیم کرتی ہے کہ بیرون ملک مقیم ایک چھوٹے سے طبقے نے پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کیا ہے لیکن میں نے جب کچھ ذمہ دار افراد سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے غلط سرگرمیوں کی مذمت کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں کیونکہ وہ قوم کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ میں نے جب اس سورتحال میں پاکستان کی حکمت عملی سے متعلق دریافت کیا تو ذمہ دار شخصیات نے اپنے تارکین وطن پر زور دیا کہ وہ اپنے باہمی اتحاد کو ترجیح دیں اور اجتماعی تشخص کو کمزور کرنے کے لیے بنائے گئے بڑے سیاسی ایجنڈوں میں پیادے بننے سے گریز کریں۔شائد وہ پی ٹی آئی و ن لیگی گروہ بندی کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔پاکستان مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ اس مشکل وقت میں، تارکین وطن کے لیے گرومنگ گینگز جیسے جھوٹے بیانیے کا مقابلہ کرنے اور عالمی سطح پر اپنی کمیونٹی کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے ریاستی کوششوں سے ہم آہنگ رہنا بہت ضروری ہے۔میں چاہتا تھا کہ سرکار کی سطح پر اس معاملے کی سنگینی کا احساس معلوم ہو ۔استفسار پر بتایا گیا کہ ریاست ڈائیسپورا کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتی ہے کہ اجتماعی طاقت اور اتحاد تفرقہ انگیز بیان بازی اور ٹارگٹڈ مہمات کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار ہیں۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی سیاسی طور پر مضبوط ہو رہی ہے۔برطانیہ عالمی فیصلہ سازی میں اہمیت رکھتا ہے اس لئے وہاں کچھ بیرونی ریاستیں ایسی تدابیر کرتی رہتی ہیں جو پاکستانیون کو بدنام اور ان کی ساکھ کو تباہ کرسکیں۔ اندرونی کمزوری کے استحصال کے تناظر میں ممکنہ بھارتی لنک پر شک ظاہر کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی باشندے برطانیہ میں سب سے بڑی مسلم ڈائسپورا نسل ہیں۔ گرومنگ گینگز کی شکل اب ایک اور طرح سے ابھرنے لگی ہے۔برطانیہ کا معاملہ اس سے جڑ رہا ہے کہ ایلون مسک نے پاکستانیوں پر الزامات پر جلتی پر اتیل ڈالا ۔ یورپی یونین میں بھی، مسک پر اب تک فرانس، جرمنی اور ناروے نے سیاست میں مداخلت کا الزام لگایا ہے۔ مسک ٹومی رابنسن کی حمایت کرتا ہے۔ٹومی ایک انتہائی دائیں بازو کا کارکن اور اسلامو فوب ہے۔ وہ لندن بم حملہ آور کے لیے بھی ایک ترغیب کا مالک تھا۔ خدشہ موجود ہے کہ ایلون مسک کا ایکس اب بیانیہ کی جنگ کے لیے ایک میدان بن چکا ہے، جو ان ریاستوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے جنہیں امریکہ سٹریٹجک حوالے سے کمزور تصور کرتا ہے۔ مشرق وسطیٰ ہو، جنوبی ایشیا ہو یا یورپ، ٹرمپ کے اوول آفس میں قدم رکھنے سے پہلے ٹرمپ کے منتظمین کے نامزد امیدوار آئندہ امریکی خارجہ پالیسیکے لیے کام کر رہے ہیں، جو ٹرمپ کے پچھلے دور کی نسبت تھوڑا جارحانہ لگتا ہے۔برطانیہ میں مسلم کمیونٹی،پاکستانی ڈائسپورا کے خلاف مہم کا تعلق عالمی پروپیگنڈہ کے کس کس میدان سے جا نکلتا ہے اسے سمجھے بنا پاکستانیوں کو کیسے مورد الزام ٹھہرانا ٹھیک ہو گا؟