2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

گریٹر اسرائیل اورمسلم حکمرانوں کامجرمانہ کردار

عبدالرفع رسول
09-10-2024

گریٹر اسرائیل کا تصور محض فسانہ نہیں،جولوگ اسے فسانہ سمجھتے ہیں تو انہیںسوشل میڈیا میں شائع ہوئی ایسی تصاویردیکھ لینی چاہئے جن میں غزہ کے بعد لبنان میں داخل ہونے والے درندہ صفت اسرائیلی فوجیوں کی وردیوں پر’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کے نقشے والے بیج لگے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیاگریٹر اسرائیل ممکن ہے ،اس سوال کاجواب عرب حکمرانوں کی مجرمانہ بے حسی سے اورعجم کی حکومتوں کی بزدلانہ خاموشی سے نہایت آسانی کے ساتھ مل جاتاہے ۔اگریہ کہاجائے توزیادہ مناسب ہوگا کہ عرب کے حکمران اپنی بے حسی اورعجم کی حکومتیں اپنی بزدلی سے گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کررہی ہیں۔ عربوں میں کسی قسم کی فکری اور نظریاتی تحریک، جو عربوں کو طاقت دے سکتی ہو، کا خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ اخوان المسلمون کاخاتمہ کردیاگیاہے جبکہ حماس کا خاتمہ جاری ہے۔ یہ کیاہے یہ گریٹر اسرائیل کے قیام کے حوالے سے اہم اقدام ہے۔حقائق یہ ہیں کہ یہودی اس خطے کو’’ایرٹز اسرائیل‘‘ یا’’لینڈ آف اسرائیل ‘‘کے نام سے جانتے ہیں اور یہ اسرائیل کی موجودہ سرحدوں سے کہیں بڑا جغرافیائی علاقہ ہے۔صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کے مطابق ’’پرومسڈ لینڈ‘ یا گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مصر میں دریائے نیل سے لے کر عراق میں نہرِ فرات تک کے علاقے شامل ہیں یعنی فلسطین، لبنان، اردن، عراق، ایران، شام، مصر، ترکی اور سعودی عرب بھی گریٹر اسرائیل کا حصہ ہوں گے۔تھیوڈور ہرزل کے اس موقف کے اظہارکے بعداسرائیل میں ہر دور میں گریٹر اسرائیل کے تصور کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ اسرائیلی یہودیوں کو باور کرایا گیا ہے کہ آسمانی کتب میں جن علاقوں کا ذکر ہے وہ سب کے سب اُن کے ہیں اور ایک گریٹر اسرائیل میں شامل ہوں گے۔ بہت پہلے کی بات نہیں بلکہ جنوری 2024میں دریدہ دہن اسرائیلی مصنف ایوی لپکن کا ایک انٹرویو وائرل ہوا تھا جس میں اس نے دعوٰی کیا کہ ایک ہماری سرحدیں موجودہ سعودی عرب سے نہرِ فرات یعنی عراق تک پھیلی ہوئی ہوں گی۔ملعون اسرائیلی مصنف نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایک دن آئے گا کہ طورسینا پر بھی ہمارا قبضہ ہوگا۔اقوامِ متحدہ نے 1947 میں فلسطین کو یہودی اور عرب ریاست میں تقسیم کرکے بیت المقدس کو بین الاقوامی شہر قرار دیا تھا مگر سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم بیگن کا کہنا تھا کہ فلسطین کی یہ تقسیم غیر قانونی ہے، بیت المقدس یہودیوں کا ہے اور یہودیوں ہی کا رہے گا۔ 1917ء میں بالفور ڈیکلیئریشن کے ذریعے صہیونی قیادت کو برطانیہ کے وزیر خارجہ لارڈ بالفور نے بتایا کہ حکومت برطانیہ یہودیوں کے لئے ایک الگ اسرائیلی ریاست کے قیام کی حمایت کرتی ہے تو مختلف ممالک میں بسنے والے یہودیوں کو فلسطین کی طرف جانے اور انہیں وہاں زمینیں خریدنے اور بسنے کی ترغیب دی جانے لگی۔ روتھ چائلڈ خاندان نے اس حوالے سے دل کھول کر مالی ذرائع فراہم کئے پھر 1948ء میں اسلام کے سینے میں اسرائیل کے نام سے خنجرگونپ دیاگیا ۔تاریخ گواہ ہے کہ برطانیہ نے ناجائز ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں لایااوراس کے قیام کے بعد امریکہ اس کا نگران و نگہبان اورمحافظ بنا۔آج غزہ سے لبنان تک ٹنوں کے حساب سے گرایا جانے والاگولہ بارود امریکہ برطانیہ و دیگر مغربی ممالک کا فراہم کردہ ہے۔ وہ اپنے اسلام دشمن کردار سے مسلسل کے حوصلے بڑھا رہے ہیں۔ اسرائیل کو امداد دی جا رہی ہے۔امریکہ، برطانیہ و اقوام مغرب میں یہودی مخالف تحریر اور تقریر قابل گرفت عمل ہے۔ غرض امریکہ سے یورپ تک ساری مغربی دنیامسلمانوںکا قلع قمع کرنے کے لئے یکسوئی سے مصروف عمل ہیں۔ غزہ کے بعد لبنان میں جاری اسرائیلی جارحیت اوردیگر ہمسائیہ ممالک میں اسرائیلی کارروائیوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران اس نے ایران، شام اور لبنان میں ٹارگٹڈ حملے بھی کیے ہیں اور اقوامِ متحدہ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی جنگ بندی کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اسرائیلی کارروائیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بے باک ہوتی جا رہی ہیں۔غزہ سے لبنان تک اسرائیلی جارحیت اورامریکہ اوریورپ کی اسکی پشت پناہی سے اس امر کی تصدیق ہورہی ہے کہ اسرائیل اپنے ناپاک منصوبے پر شدت کے ساتھ کاربندہے ۔بی بی سی اب اس جنگ سے ہونے والی مالی و جانی نقصانات کے اعداد و شمار جمع کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے بھی بات کر رہا ہے جو اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں تاکہ ان کہانیوں کو سامنے لایا جائے جو اعداد و شمار میں کھو گئیں ہیں۔ 2024 تک، اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ غزہ کی تقریباً 21 لاکھ آبادی میں سے نوے فیصد بے گھر ہو چکے ہیں۔اگست 2024 میں یونیسیف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غزہ کے 17 لاکھ افراد کو 48 مربع کلومیٹر کے علاقے میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس سے فی مربع کلومیٹر میں 35 ہزار سے زیادہ افراد موجود ہیں۔جنگ کے پہلے چھ دنوں میں اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پر 6000 بم گرائے تھے۔ جولائی 2024 کے اوائل تک، اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا کہ غزہ میں انفراسٹرکچر کی تباہی سے 40 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ جمع ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ غزہ میں فی مربع میٹر زمین پر 115 کلو گرام ملبہ پڑا ہوا ہے۔پورا سال جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے لوگوں کو ’محفوظ علاقوں‘ کی طرف جانے کی ہدایت کرتے ہوئے انخلا کے احکامات جاری کیے ہیں۔اگست 2024 میں یونیسیف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غزہ کے 17 لاکھ افراد کو 48 مربع کلومیٹر کے علاقے میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس سے فی مربع کلومیٹر میں 35 ہزار سے زیادہ افراد موجود ہیں۔