گورنر اور وزیراعلیٰ سے توجہ کی درخواست
ظہور دھریجہ
سابقہ دور کے مقابلے میں موجودہ دور میں اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ وسیب کی فریاد پر توجہ دی جاتی ہے ‘ جیسا کہ حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کے عرس پر پابندیوں کا معاملہ تھا تو گورنر اور وزیراعلیٰ نے اس پر نوٹس لیا اور ان کی ہدایت پر ضلعی انتظامیہ نے پابندیاں ختم کر دی ہیں اور وسیب کے کروڑوں افراد نے اس کا خیر مقدم کیا ہے ۔ اسی طرح تعلیم کا معاملہ نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے ‘ اس پر توجہ کی ضرورت ہے ، خصوصاً سرائیکی تعلیم کے مسئلے پر۔ یہ حقیقت ہے کہ آج سرائیکی میٹرک ، ایف اے ، بی اے ، ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی میں پڑھائی جا رہی ہے ‘ مگر سکولوں میں سرائیکی پڑھانے والا ابھی ایک بھی ٹیچر تعینات نہیں ہوا ۔ وسیب کے میل اور فی میل کالجوں میں فوری طور پر کم از کم ایک سو سرائیکی لیکچررز کی ضرورت ہے ۔ مزید برآں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور زکریا یونیورسٹی ملتان میں خواجہ فرید چیئرز عرصہ قریباً 15 سال سے قائم ہیں ، مگر ان کو فنکشنل نہیں کیا گیا ۔ سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر ملتان کے چھ ذیلی ادارہ جات کے لئے یونیورسٹی کے ہر سالانہ بجٹ میں رقم مختص کی جاتی ہے مگر نہ ذیلی ادارہ جات فنکشنل کئے جاتے ہیں اور نہ ہی ریسرچ سکالر تعینات ہوتے ہیں ‘ اس لئے گورنر چوہدری سرور ‘ وزیراعلیٰ عثمان بزدار ان امور کی طرف فوری توجہ کریں گے تو نہ صرف سرائیکی وسیب بلکہ ملک و قوم کیلئے بھی بہترین اقدام ہوگا۔ صوبے کی تمام یونیورسٹیاں گورنر کی دائرہ اختیار میں آتی ہیں ۔ بلحاظ عہدہ وہ تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں ۔ سرائیکی وسیب ایسا خطہ ہے جہاں آبادی کے لحاظ سے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد بہت کم ہے اور جو چند ایک یونیورسٹیاں ہیں ان کی حالت بھی قابلِ رشک نہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر سابق گورنر جنرل ٹکا خان نے 1989ء میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے اجراء کا نوٹیفکیشن جاری کیا ۔ اسلامیہ یونیورسٹی نے سرائیکی شعبہ قائم کر دیا جبکہ زکریا یونیورسٹی نے سرائیکی شعبہ قائم نہ کیا ۔ جس کی بناء پر بندہ ناچیز نے عدالت میں رٹ پٹیشن دائر کی اور پانچ سال کی جدوجہد کے بعد شعبہ قائم ہوامگر یونیورسٹی کی سیاست کرنے والے اساتذہ نے اپنے من پسند ایسے افراد کو بھرتی کیا جو آج تک تماشہ بنے ہوئے ہیں اور وہ سرائیکی شعبے کی کامیابیوں کی طرف کم اور ناکامیوں کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں ، جیسا کہ پچھلے دنوں مرجان کا واقعہ سامنے آیا۔ سرائیکی شعبے کے دوسرے معاملات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ عہدے ہمیشہ کیلئے نہیں ہوتے لیکن اپنے وقت میں کوئی بھی شخص اچھا کام کر جائے تو اسے ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے ۔ میرا صرف اتنا سوال ہے کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سرائیکی شعبہ کو تین کروڑ روپے ریسرچ کیلئے گرانٹ دی اس بات کی تحقیق ہونی چاہئے کہ وہ گرانٹ کہاں گئی؟ سرائیکی شعبے میں تادمِ تحریر ایم فل اور پی ایچ ڈی کیوں شروع نہیں ہو سکی؟ جبکہ ایم فل کا نصاب بھی منظور ہے ۔ سرائیکی شعبے پر اردو شعبے کی بے جا مداخلت سے چیئرمین کیوں آ رہے ہیں؟ جبکہ بہت سے پی ایچ ڈی موجود ہیں۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے نوٹس میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ موجودہ وائس چانسلر کی خدمت میں بار بار توجہ مبذول کرائی گئی مگر انہوں نے ہماری درخواستوں پر آج تک توجہ نہیں دی ۔ ظلم تو یہ ہے کہ وائس چانسلر صاحب نے پچھلے دنوں اپنے مسائل پر خودکشی کی کوشش کی، وہ ہسپتال میں رہے ، مگر حکومت نے انہیں عہدے پر برقرار رکھا۔ اگر وائس چانسلر نے سرائیکی شعبے کے مسائل پر توجہ دی ہوتی سرائیکی شعبہ لا وارث اور یتیم نہ ہوتا۔ مزید یہ کہ ملتان اور بہاولپور میں خواتین یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں ۔ ہم ایک عرصہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان یونیورسٹیوں میں سرائیکی شعبے قائم کئے جائیں ۔ آج اگر خواتین یونیورسٹی میں سرائیکی شعبہ قائم ہوتا تو وہ مرجان کیس زکریا یونیورسٹی میں پیش نہ آتا۔ آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طورپر خواتین یونیورسٹی ملتان اور خواتین یونیورسٹی بہاولپور میں سرائیکی شعبہ جات قائم کرنے کا حکم صادر فرمائیں ۔ یہ لکھتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ سرائیکی طلبہ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، سرائیکی کی محبت میں بہت لوگوں نے اپنی نجی لائبریریاں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیں ، سب کچھ بے کار اور بند پڑا ہے، سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے چیئر مین اور اساتذہ اس طرح لڑ رہے ہیں کہ اس طرح جنگلوں میں جانور بھی نہیں لڑتے ۔سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، چانسلر سے درخواست ہے کہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے معاملات پر توجہ دیں اور اردو والے چیئر مین کو اردو ڈیپارٹمنٹ میں بھیجیں اور سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں سرائیکی سکالرز تعینات کریں تاکہ سرائیکی پڑھنے والے طلبہ کا فائدہ ہو ، یونیورسٹی کی بھاری تنخواہیں حلال ہوں ، سرائیکی شعبے میں ایم فل اور پی ایچ ڈی شروع کرائی جائے ، اور سندھیالوجی کی طرز پر ریسرچ کے کام کو وسعت دی جائے ، سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کی بجائے اس کا نام سرائیکالوجی یا پھر سرائیکی ڈیپارٹمنٹ رکھا جائے اور اس شعبے کی بلڈنگ کا ایک کمرہ بھی کسی دوسرے شعبے کو نہ دیا جائے کہ یہ حساس معاملہ ہے ۔ امید ہے گورنر اور وزیراعلیٰ صاحب ان معاملات پر پہلی فرصت میں ضرور توجہ دیں گے۔ چند ایک مزید اہم امور پر توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ، توجہ کی درخواست کے ساتھ میں نے اسی طرح کی درخواست خیبرپختونخواہ کے سابق گورنر سے بھی کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کا سرائیکی ڈیپارٹمنٹ منظور ہے اور وہاں سابق ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی کی طرف سے افتتاح کی تختی بھی لگی ہوئی ہے تو مہربانی کریں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ فوری قائم کریں ‘ آپ کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور آپ کو وسیب کے لوگ ہمیشہ کیلئے دعائیں دیں گے مگر انہوں نے ہماری درخواست پر توجہ نہ دی۔ بارِ دیگر عرض کر رہا ہوں کہ سرائیکی شعبے کی طرف توجہ دیں کہ طویل عدالتی جدوجہد کے نتیجے میں بند ناچیز نے سٹڈی سنٹر اور اس کی بلڈنگ حاصل کی۔ میری اتنی درخواست ہے کہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کی تمام آسامیاں فِل کرائیں ‘ تمام شعبہ جات کو فنکشنل کرائیں اور سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کو وہی مقام اور مرتبہ دیں جو کہ سندھیالوجی کو حاصل ہے۔ تاکہ وسیب کے لوگ آپ کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھیں ۔