آہ! ڈاکٹر سلیم اختر
سعد الله شاہ
وہ زمانے ہیں تعاقب میں مرے جن زمانوں سے گزر آیا ہوں سانپ پھر بھی ہے مقابل میرے سیڑھیاں ساری اتر آیا ہوں وقت دبے پائوں کیسے گزر جاتا ہے‘ خبر تک نہیں ہوتی۔ ہم حال مست و مال مست ‘ کسی اپنی ہی منزل کی طرف رواں ہوتے ہیں پھر یکایک کسی کے کوچ کی خبر ہمیں چونکا دیتی ہے ہم کسی شہادت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پھر غالب یاد آتا ہے’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ ڈاکٹر سلیم اختر کی رحلت خبر بنی تو ایسے لگا جیسے گم گشتہ لمحے مجسم ہو کر سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں۔ آنکھوں اور ہونٹوں سے یکبارگی ہنستا ہوا شخص‘ خوشگوار ساعتوں کا نقیب اور دلنوازی کے انداز جاننے والا یادوں میں خوشبو بن کر پھیل گیا۔ اکتیس دسمبر‘ سال کا آخری دن مجھے اسی لمحے شہزاد احمد بھی یاد آئے پہلی مرتبہ اپنے گھر کا بتایا تو کہنے لگے‘ سال کا آخری دن یاد کرنا یعنی گھر کا نمبر 31 DCآفیسر کالونی۔ ایک شہزاد احمد ہی کیا ایک گلیکسی ہے جو اب تک آنکھوں میں ترو تازہ ہے۔ سرسوں رنگ جیسی روشنی۔ دور نہ بھی جائیں تو اسی اقبال ٹائون اور ساتھ ندیم شہید روڈ سے احمد ندیم قاسمی ‘ مشکور حسین یاد اور قتیل شفائی۔ پھر ادھر سے مظفر وارثی ‘ انور سدید‘ توصیف احمد‘ فرخندہ لودھی‘ حسین شاد اور اب ڈاکٹر سلیم اختر کون کون نہیں اٹھ گیا۔ میں جنارے پر پہنچا۔ عطاء الحق قاسمی‘ امجد اسلام امجد سے لے کر ڈاکٹر زاہد منیر عامر تک کتنے ہی ادیب وہاں جمع تھے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد بھی تو کم نہیں۔ اصغر ندیم سید سے لے کر سعادت سعید تک کتنے ہی ڈاکٹر ان کے شاگردوں میں وہاں موجود تھے۔ میں ستلج بلاک اور جہانزیب بلاک میں چودہ پندرہ سال تک رہا۔ ادیبوں کی اس بستی سے ڈیفنس اور دوسرے پاس کے ایریاز میں لوگ چلے گئے۔ مجھے معاً احمد مشتاق یاد آئے: اک زمانہ تھا سبھی ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے افضال احمد سے بھی ملاقات ہوئی کہ سنگ میل ہی نے ڈاکٹر سلیم اختر کی متعدد کتب شائع کیں۔ جن میں ’’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘ نے سیل کے ریکارڈ قائم کئے۔ چالیس کے قریب اس کے ایڈیشن آ چکے۔ ڈاکٹر صاحب کے افسانے اور تنقید پر کتب الگ ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک کتاب جو پی ایچ ڈی کے تھیسس پر مشتمل تھی بھارت سے شائع ہوئی۔ وہ زمانہ بڑا ہنگامہ خیز تھا جب ڈاکٹر سلیم اختر اور انور سدید اخبارات کے لئے سالانہ تبصرہ لکھا کرتے تھے۔ دونوں میں کمال چشمک تھی۔ ایک احمد ندیم قاسمی اور دوسرا وزیر آغا کے نمائندہ۔ مجھے یاد ہے جب ہم حسن رضوی کے پاس بیٹھے ہوتے تو ڈاکٹر صاحب سے رابطہ ہوتا کہ ان کا خط خوش خط نہیں تھا۔ وہ خود بھی اپنے ہینڈ رائٹنگ کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ ویسے بھی جولی فیلو تھے پھر ان کی کمپنی بھی تو عطاء الحق قاسمی صاحب کے ساتھ تھی۔ قربت اور ہمسائیگی۔ ایک بات مجھے کہنے دی جائے کہ جتنی عزت اور احترام اپنے سینئرز کو عطا صاحب نے دیا کسی نے کہیں دیا۔ وہ عبداللہ حسین‘ انتظار حسین اور ڈاکٹر سلیم اختر کو زبردستی اٹھا کر الحمرا آرٹس کونسل لے گئے اور پذیرائی بخشی۔ عطا صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک دن وہ انہیں دیکھنے ہسپتال پہنچے تو نیم بے ہوشی میں تھے ۔ تو عطا صاحب نے کہا’’ہاں مہاشاجی کیہ ہویا اے‘‘ ڈاکٹر صاحب مسکرا دیے۔ مجھے نوائے وقت کا ایوان حمید نظامی کا پروگرام بھی یاد آیا جس میں بشریٰ رحمن کو بلبل پاکستان کے خطاب کے ساتھ تقریر کے لئے بلایا گیا۔ بعد میں ڈاکٹر سلیم اختر کی باری تھی تو وہ کہنے لگے’’قارئین آپ کو بلبل کے بعد ایک کوّے کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ محفل کشت زعفران بن گئی۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر جودت سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا ڈاکٹر طاہر تونسوی نہیں آئے؟ اس لیے پوچھا کہ وہ ڈاکٹر سلیم اختر کے چہیتے شاگرد تھے۔ جب بھی ملتان سے آئے تو کئی کئی دن ڈاکٹر صاحب کے پاس ہی ٹھہرتے۔ پتہ چلا کہ تونسوی صاحب بھی بہت بیمار ہیں۔ اللہ انہیں شفا دے ۔ اے جی جوش اور قتیل شفائی کے گھر پر برپا ہونے والی محفلوں میں بھی ڈاکٹر صاحب باقاعدہ آتے اور ان کی موجودگی ایک کھلے ہوئے پھول کی طرح ہوتی۔ بڑی نرماہٹ کے ساتھ وہ مسکراتا ہوا کوئی جملہ آگے بڑھا دیتے۔ نفسیات ان کا مضمون تھا۔ گورنمنٹ کالج میں وہ تدریس سے منسلک رہے۔ انہوں نے ادب کو ہی اوڑھنا بچھونا بنایا اور ایک صد کے قریب کتب ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ ان کا کام انہیں زندہ رکھے گا وہی جو پروین شاکر نے کہا تھا: مر بھی جائوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے شعر میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے مجھے یقین ہے اور سچ مچ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اپنے حوالے میں یہ شعر پڑھتے تو مسکرا کر کہتے ’’شاہ کیہ شعر کوٹ کیتا جے میرے لئی!‘‘ان کے لئے ان کے سینکڑوں نہیں ہزاروں شاگرد دعا کرنے والے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ میرے ایک شعری مجموعے کا دیباچہ بھی انہوں نے لکھا اور لکھا’’منیر نیازی جیسا خود پسند بھی سعداللہ شاہ کی تعریف کرتا ہے‘‘ ان کا جنازہ نرسری کی گرائونڈ میں ہوا اور تدفین کریم بلاک کے قبرستان میں۔ حفیظ تائب کا مدفن بھی وہیں ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ‘ ڈاکٹر ایوب ندیم‘ ناصر بشیر‘ ناصر زیدی‘ شفیق کھوکھر‘ نوید قتیل‘ تنویر ظہور‘ کوثرعلی وڑائچ اور دوسرے کئی ادیب مجھے جنازے کے دوران نظر آئے۔ اک تعلق ہی تو سب کو کھینچ لایا تھا ‘وگرنہ شاعر ادیب صبح دس بجے کسی جگہ کہاں پہنچ سکتے ہیں۔ لیاقت بلوچ ‘ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا‘ خالد آفتاب ‘ خالد سنجرانی اور ثاقب نفیس بھی وہاں تھے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا بتا رہے تھے کہ ڈاکٹر سلیم اختر کے ساتھ انہوں نے کئی سفر کئے۔ سلیم صاحب بہت بزلہ سنج اور شگفتہ بات کرنے والے تھے۔ آپ اسے حس مزاح کہہ لیں جو انہیں ممتاز کرتی تھی ان کا اساسی حوالہ تو واقعتاً تنقید کا ہے۔ اگرچہ وہ نفسیاتی پہلو پر حاوی تھے مگر زیادہ تر ان کا انداز امتزاجی تنقید کا تھا۔ افسانے بھی ان کے متوجہ کرتے تھے۔ بہرحال وہ ایک مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے بھر پور زندگی گزاری۔ بات پھر وہی آئی ہے کہ ایک نہ ایک روز تو کوچ کرنا ہے: اپنی مٹھی میں کوئی بھی لمحہ نہیں اور کہنے کو ہم کتنے برسوں جیئے علامہ اقبال ٹائون کے اس سخن آباد سے ایک پھر ایک جنازہ اٹھا اور کئی آنکھیں اشک بار تھیں۔ کتنے ہی سن رسید اور جھریوں سے بھرے چہرے بھی ایک احساس ہمنشینی کے ساتھ وہاں لوگوں کو کاندھا دیتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ کچھ نسوانی آوازیں رونے کی۔ وہی جو منیر نے کہا تھا: بین کرتی عورتیں رونقیں ہیں موت کی آخری بات یہ کہ: آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نُو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے