یوم یکجہتی فلسطینمنانے کا فیصلہ
حکومت نے 7اکتوبر کو غزا اور فلسطین میں اسرائیلی مظالم و بربریت کے شکار نہتے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی منانے اور وزیر اعظم کی زیر صدارت آل پارٹی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیل 8دہائیوں سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور فلسطینی علاقوں پر قبضہ کے لئے منظم منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ دنیا میں امن کے نام پر قائم ہونے والی عالمی ادارہ اقوام متحدہ نا ہی عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو اپنے مذموم ایجنڈے پر عملدرآمد کرنے سے روک سکی۔اسرائیل نے غزا کو ملبے کے ڈھیر میں بدلنے اور 41ہزار فلسطینیوں کے قتل ناحق کے بعد اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو آگے بڑھاتے ہوئے لبنان شام اور عراق پر حملے شروع کر دیے ہیں۔ امریکی پشت پناہی میں اسرائیل اپنے منصوبے کو عملی شکل دینے میں مصروف ہے اور عالمی برادری کی کارروائیاں بے بسی سے احتجاج اور التجائوں تک محدود ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے 79ویں اجلاس میں عالمی برادری بالخصوص اسلامی ممالک نے اقوام متحدہ سے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اقوام عالم کو اسرائیل کی جارحیت اور فسطائیت روکنے کے لئے کردار کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے قبل عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کی ہدایت کر چکی مگر ناکام رہی ۔ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے فلسطینیوں کی نسل کشی اور آزاد اور خود مختار ریاستوں پر جنگ مسلط کرنے سے روکنے کے لئے سلامتی کونسل سے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے مگر اسرائیل نے عالمی برادری کی کوششوں اور مطالبوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ایران کی سرزمین پر حملہ کرکے اسماعیل ہانیہ کے بعد لبنان میں حماس کے سربراہ حسن عبداللہ کو بھی شہید کر دیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی باعث تشویش ہے کہ 7اکتوبر کے بعد اسرائیل نے حملے شروع کرنے سے قبل غزا کے فلسطینیوں کو شمال سے جنوب چلے جانے کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد لاکھوں فلسطینی شمال میں ہجرت کے علاوہ لبنان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اب اسرائیل نے لبنان پر حملے شروع کر دیے ہیں جن میں ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں اب تک لبنان سے محفوظ مقامات کی جانب ہجرت کرنے والوں کی تعداد 12لاکھ سے زائد بتائی جا رہی ہے اس کے علاوہ اسرائیل شام اور یمن پر بھی فضائی حملے کر رہا ہے جس سے ناصرف جنگ مڈل ایسٹ میں پھیلنے کا خدشہ ہے بلکہ فلسطین اور لبنان سے لاکھوں افراد کی ہجرت سے خطہ میں انسانی المیہ کے جنم لینے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی اور آزاد ریاستوں پر حملوں بالخصوص ایران کی سرزمین پر حملے کے بعد ایران نے اپنی سلامتی اور خود مختاری یقینی بنانے کے لئے اسرائیل پر 200سے زائد میزائل داغے اور پہلی بار اسرائیل کا ایئر ڈوم دفاعی نظام ان حملوں کو روکنے میں ناکام ہوا ایران کی جوابی کارروائی کے بعد اسرائیل اور اس کا پشت پناہ امریکہ ایران پر حملوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے عالمی ماہرین فلسطین کی آگ مڈل ایسٹ میں پھیلنے کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں ان حالات میں عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ اسرائیل کے جارحانہ عزائم کے آگے بند باندھنے کے لئے عملی اقدامات اور سفارتی کوششیںتیز کرے۔ موجودہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ اوآئی سی، تمام اسلامی دنیا خصوصاََ فلسطین کے ہمسایہ عرب م ممالک جنگ رکوانے کے اپنا بھرپور کردار ادا کر یں ، ورنہ یہ جنگ ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ جہاں تک حکومت کا 7 اکتوبر کو مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی منانے اور آل پارٹی کانفرنس بلانے کے فیصلے کا تعلق ہے تو بلاشبہ یہ لائق تحسین اقدام ہے، اس سے یقیناََ فلسطینی کاز کو بھی مضبوط بنانے میں مدد ملے گی ، نیز اس سے حالیہ دنوں میں جماعت اسلامی کے سیو غزا ریلی اسلام آباد اور کراچی میں فلسطینیوں کے حق میں نکالی گئی ریلی پر انتظامیہ کی جانب سے تشدد کے بعد جو حکومت اور عوام کے جذبات میں ٹکرائو کا تاثر ابھرا تھا یقیناً کم ہو گا رہی بات حکومت کے آل پارٹی کانفرنس بلانے کے فیصلے کی تو یہ بھی یقیناً دانشمندانہ فیصلہ ہے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں جس طرح کا تنائو پایا جاتا ہے اس ماحول میں فلسطین کاز پر اپوزیشن اور حکومت کا مل بیٹھنا ملک کے سیاسی ماحول کے لئے نیک شگون ہو گا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت اپوزیشن کو آل پارٹی کانفرنس میں شمولیت کے لئے قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی تاکہ پاکستان کی اپوزیشن سمیت اور مذہبی جماعتوں سمیت پورے ملک سے متفقہ پیغام جائے۔بہتر ہو گا حکومت فلسطینیوں کے ساتھ یوم یکجہتی منانے اور آل پارٹی کانفرنس منعقد کرنے کے بعد عالمی سطح پر بالخصوص او آئی سی کا ہنگامی اجلاس ایک بار پھر بلانے کی سعی کرے گی اور اجلاس میں ترکیہ کے صدر طیب اردگان کا اسرائیل کی جارحیت روکنے کے لئے سلامتی کونسل کے عملی اقدامات کا مطالبہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھی اٹھایا جائے تاکہ اسلامی دنیا یک زبان ہو کر سلامتی کونسل کو اسرائیل کی سفاکیت روکنے کے لئے طاقت کے استعمال پر قائل کرسکے اور فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر امن و سکون سے رہنے اور مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے میں پیش رفت ممکن ہو سکے تاکہ فلسطین سے اٹھنے والے جنگ کے شعلوں کو خطہ کے دیگر ممالک کو لپیٹنے سے روکا جا سکے۔