یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کیلئے
ظہور دھریجہ
گذشتہ روز 5 اکتوبر کو ٹیچرز ڈے منایا گیا۔ اس پر بھی بات ہونی چاہئے کہ ملک کی سیاسی صورتحال بھی عدم سیاسی تربیت کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ روز تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد میں احتجاج کیا گیا۔ خیبرپختونخواہ کی حکومت، وفاق اور پنجاب کی حکومت ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں، حالات اس قدر خراب ہوئے کہ اسلام آباد کو فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ اسلام آباد کو ہزاروں کنٹینروں کے ذریعے سیل کر دیا گیا۔ امن و امان پر روزانہ کروڑوں، اربوں روپے خرچ کئے جار ہے ہیں۔ یہ رقم (ن) لیگ نے اپنی جیب سے نہیں دینی، یہ غریبوں کے خون پسینے کی کمائی ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف والے خیبرپختونخواہ کے وسائل اپنے اقتدار کی جنگ کیلئے استعمال کر رہے ہیں کہ یہ بھی غریبوں کے خون سے چوسی گئی دولت ہے جو کہ بے دردی کے ساتھ اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کی جا رہی ہے۔ سب اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں۔ اپنے اپنے حقوق کا رونا روتے ہیں۔ اپنی ذمہ داریوں کا کسی کو احساس نہیں۔ کوئی ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام نہیں کر رہا۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتیں ہر وقت استعمال ہونے کیلئے تیار رہتی ہیں۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک و قوم کی بہتری کیلئے سوچا جائے۔ سیاسی بصیرت کو بروئے کار لایا جائے۔ یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ جس جماعت کو اقتدار ملتا ہے وہ خوش ہو جاتے ہیں اُن کو سب اچھا لگتا ہے اور وہ اداروں کی تعریف میں رطب اللسان ہو جاتا ہے۔ اسے ہر طرف سبزہ دکھائی دیتا ہے اور جونہی اسے اقتدار سے ایک طرف کر دیا جاتا ہے تو اسے برائیاں ہی برائیاں نظر آتی ہیں اور پھر اقتدار حاصل کرنے والی جماعت کو پچھلی تمام برائیاں اچھائیاں نظر آتی ہیں۔ 2018ء میں عمران خان آیا تو موجودہ حکمرانوں نے مجھے کیوں نکالا؟ کی تکرار شروع کر دی۔ آج یہی کچھ تحریک انصاف کہہ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے غیر جمہوری انداز میں (ن) لیگ کا ساتھ دے کر اپنا کباڑہ کر لیا ہے۔ سب لوگ جمہوریت کے چیمپئن بنتے ہیں مگر جس طرح اقتدار حاصل کیا گیا اُس کا کسے معلوم نہیں؟ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کہتے ہیں ، آزادی کی تحریک؟ کون سی آزادی یہ محض ایک نعرہ ہے۔ تحریک انصاف سمیت کسی جماعت کے پاس ملک کی بہتری کیلئے کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ہمارے سیاستدانوں اور اداروں میں ’’نگاہ بلند سخن دلنواز اور جاں پرسوس یہی رخت سفر میر کارواں کیلئے‘‘ والا کوئی معاملہ نہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں بھی ادارے تباہ ہوئے، لوگوں کا روزگار چھینا گیا، لوگوں کو بے گھر ہوئے، ملک پر قرضوں کے انبار لگ گئے، بڑی تیزی کے ساتھ تحریک انصاف غیر مقبول ہو رہی تھی کہ ایک بار پھر عمران خان کو لیڈر بنا دیا۔ اب بھی لیڈروں کی کوئی سوچ نہیں ہے۔ صرف ضد اور ہٹ دھرمی چل رہی ہے۔ جن لوگوں کو جیلوں میں ہونا تھا اب وہ برسراقتدار آکر ملک و قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، نہ کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی منزل کا تعین، کسی کو معلوم نہیں کہ ہم نے کہاں جانا ہے؟ آگے کیا کرنا ہے؟ معیشت بیساکھیوں کے سہارے چل رہی ہے۔ زراعت تباہ کر دی گئی ہے۔ کاشتکار خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ گندم کے کاشتکاروں کو نگران وزیر اعظم کی نگرانی میں کھربوں کا نقصان دیا گیا۔ سود پر قرض لے کر کاشتکار نے کپاس مہنگی کھاد اور مہنگی ادویات کے ذریعے کاشت کی تو ناقص بیج نے کپاس کا ستیا ناش کر دیا۔ کاشتکار کو قدم قدم پر مسائل ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سرائیکی وسیب جو کہ بنیادی طور پر زرعی ریجن ہے اُس کی تباہی کا کسی نے نظارہ کرنا ہو تو وہ سرائیکی وسیب میں آئے ۔ ہر گھر میں دو دو چار چار آدمی بیروگار ہیں۔ آج تک ایک بھی انڈسٹریل زون نہیں بنایا گیا۔ وسیب کے لوگ روزگار کیلئے دیگر صوبوں میں جاتے ہیں تو وہاں پنجاب کے ڈومیسائل کے جرم میں قتل کر دیئے جاتے ہیں۔ پنجگور بلوچستان کا سانحہ آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔ پنجگور میں قتل ہونیوالے سات سرائیکی مزدوروں کو شجاع آباد میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ یہ پہلا موقع نہیں بلکہ سالہاسال سے وسیب کے لوگ قتل ہوتے آرہے ہیں۔ آج تک ایک بھی قاتل نہیں پکڑا گیا۔ گزشتہ رات جھوک سرائیکی میں شہدائے بلوچستان کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں تو اس موقع پر مقررین نے بجا طو رپر کہا کہ وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کا ایک گھر ملتان میں ہے۔ چند سال قبل نواب اکبر خان بگٹی سے جھگڑے کے نتیجہ میں جب سرفراز بگٹی اور دیگر کلپروں کو بلوچستان چھوڑنا پڑا تو پناہ سرائیکی وسیب میں ملی۔ بلوچستان میں قتل ہونے والے بے قصور مزدوروں کے قتل پر کیا آج تک کوئی کمیشن بنا؟ کوئی پولیس انکوائری رپورٹ سامنے آئی؟ حکومت نے کبھی کوئی ذمہ داری قبول کی؟ لواحقین کے ورثاء کو معاوضہ ملا؟ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی نوٹس لیا گیا؟ مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں مزدوروں کے قتل عام پر بہت سے خدشات نے جنم لے لیا ہے اور بلوچستان میں ہر پنجابی غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ حکومت جان و مال کا تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اب عوام کے لئے خاموش رہناخاموش رہنا مشکل ہو چکا ہے کہ علامہ اقبال نے کہا تھا ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘ ۔شمعیں روشن کرنے کے موقع پر وسیب کی مختلف جماعتیں موجود تھیں اور تمام جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ 15 اکتوبر 2024ء کو شہدائے بلوچستان کانفرنس منعقد کی جائے اور بلوچستان کے علاوہ پنجاب اور وفاقی حکومت سے وسیب کے نہتے مزدوروں کے قتل کا حساب طلب کیا جائے۔ اب وسیب کو کمزور کرنے کے بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں ۔