2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

یہ کون لوگ ہیں؟

محمد عامر رانا
06-08-2018

کچھ قوتیں ایسی ہیں جنہوں نے ہمارے سماج‘ دماغ اور مزاج کا تانا بانا بنا ہے۔ اشارہ کسی خلائی یا زیرزمین مخلوق کی طرف ہرگز مطلوب نہیں ہے بلکہ قوت کے اس مرکز کی طرف ہے جس میں ان کے علاوہ کئی اور بھی حصہ دار ہیں۔ جھگڑا حصے کے حکم پر رہا ہے لیکن جب اس قوت کو ہی چیلنج درپیش ہو تو سب حصہ دار اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ان حصہ داروں کو طاقتور اشرافیہ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ انگریزی میں انہیں Power Elite کہتے ہیں۔ یہ لفظ ان کے مزاج کو زیادہ بہتر طور پر گرفت میں لیتا ہے۔ اس طاقتور اشرافیہ کی ساخت اور کیمسٹری بہت پیچیدہ تو نہیں البتہ قدرے گنجلک ضرور ہے۔ اس کے حصہ داروں کے مشترکہ اہداف اور مشترک قدریں اسے سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس طبقہ اشرافیہ کی نشست‘ برخاست ان کے سماجی اور ثقافتی اقدار کا اظہار ہیں۔ یہ کوئی بڑی مشکل یا دقیق فلسفیانہ مسئلہ نہیں ہے۔ اس کی وضاحت ذیل کی تمثیل سے باآسانی ہو سکتی ہے۔ اسلام آباد کے طبقہ اشرافیہ کے ایک کلب کا کپڑے بدلنے کا کمرہ (Changing Room)۔ یہ کمرہ جم‘ سوئمنگ پول‘ ٹینس کورٹ‘ گالف‘ گھڑ سواری یا ویسے ہی جسم کی چربی کو پگھلانے کے لیے سوانا جانے سے پہلے یا ان جملہ مصروفیات سے فراغت کے بعد تیار ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے زیریں متوسط طبقے کے لوگ بس یا ویگن سٹاپ پر یا بس کے اندر اور اپنے اعصابی تنائو کو کم کرنے کے لیے گفتگو کا وقفہ کرتے ہیں یا بالائی متوسط طبقے سے ذرا نیچے والے شاپنگ مال میں شاپنگ کرتے بڑھتی قیمتوں اور اس سے جڑے جملہ مسائل پر سرسری تبصرے کرتے ہیں اور بل دیتے ہوئے ایک مسکراہٹ کا تبادلہ کرتے ہیں اور پارکنگ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ ایسے ہی کپڑے بدلنے کا کمرہ طبقہ اشرافیہ کی وہ راہ گزر ہے جہاں اپنے کپڑے اتارتے اور پہنتے‘ منہ صاف کرنے والے تولیوں سے اپنے بوٹ صاف کرتے‘ جہاں وہ صفائی‘ صحت‘ بلڈ پریشر‘ شوگر اور سٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھائو پر ’’تبصرہ افروزی‘‘ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اس راہ گزر پر ملنے والے بڑے خاص لوگ ہوتے اور ان کی باتیں بھی لاجواب۔ ان میں صنعت کار‘ تاجر‘ بڑی بڑی کمپنیوں کے ڈائریکٹر‘ بڑے وکیل اور ان سے بڑے صحافی۔ ڈرے سہمے سیاستدان‘ بااعتماد سفارتکار‘ ریٹائرڈ جنرل اور افسر شاہی اور اسی قبیل کے دیگر بڑے لوگ۔ یہاں امریکی اور برطانوی لہجے کی انگریزی بولنے والوں سے لے کر اردو‘ پشتو اور ٹھیٹھ پنجابی میں تبادلہ خیال کرنے والے مل جاتے ہیں۔ جسے انگریزی بولنا آتی ہو‘ اس کا اعتماد ویسے ہی بڑھ جاتا ہے۔ خاص طور پر مخصوص لہجے والی‘ تو ان کے سماجی رتبے کا احساس ہو جاتا ہے کہ خاندانی اشرافیہ سے تعلق ہے۔ کچھ انگریزی کے ساتھ اردو یا کوئی اور زبان ملا کر گفتگو کرنے والے پتہ دیتے ہیں کہ وہ کاروبار‘ زراعت‘ صنعت و حرفت یا اردو ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے کچھ زیادہ اعتماد سے بات کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے لیے آگے بڑھنے کے واضح امکانات ہیں‘ جو کم اعتماد والے ہیں وہ تعلقات بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ کپڑے بدلنے والے کمرے میں مقامی زبان بولنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور سب انہیں پسند کرتے ہیں۔ یہ رئیل سٹیٹ (زمینوں مکانوں کی خریدوفروخت) سے وابستہ افراد ہیں اور اکثر کی اس طبقے میں آمد کسی بڑی ڈیل کی صورت میں لاٹری نکلنے کی صورت میں ہوئی ہوتی ہے۔ ان کے درمیان انیسویں اور بیسویں گریڈ کے افسر گھومتے بھی مل جائیں گے جو آتے تو بڑی گاڑیوں میں ہیں لیکن ان میں اعتماد کی کمی کی ایک وجہ ہے کہ کوئی ان سے بڑی گاڑی کے متعلق نہ پوچھ لے کہ یہ کہاں سے آئی۔ اس کمرے کی سب سے مظلوم مخلوق یہی لوگ ہیں۔ اگرچہ باقی سب کے ذرائع آمدن شفاف ذرائع سے آنے سے متعلق شبہات بھی پائے جاتے ہیں لیکن اسے چھپانے کے لیے انہیں تردید نہیں کرنا پڑتی۔ ان افسروں کو مجبوراً بات سیاست‘ کرپشن اور بدلتی اقدار پر مذکور رکھنا پڑتی ہے۔ اگر کوئی اس سے ادھر ادھر ہو تو یہ خود بھی ادھر ادھر ہو جاتے ہیں۔ ان کی مجبوری یہ بھی ہے کہ یہ اپنے اثاثے ایمنسٹی سکیموں میں دھو بھی نہیں سکتے جو دھو لیں وہ ملک میں رہ نہیں سکتے۔ ان سب میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ سب تبدیلی چاہتے ہیں۔ انتخابات اور حکومت سازی کا مرحلہ ہو اور تبدیلی پر بات نہ ہو‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ان کی سیاسی وابستگی تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ ظاہر ہے اس نے ہی تبدیلی کے نعرے کو حقیقی میں بدل دیا ہے۔ تبدیلی کے کمرے میں کپڑے بدلنے والوں کے تبدیلی کے معنی اپنے اپنے ہیں اور تبدیلی کا جو معنی عام آدمی کا ہے اس سے اس کا کوسوں دور کا واسطہ نہیں ہے۔ لیکن تبدیلی کا وہی معنی عام آدمی کو ماننا پڑے گا جس کا یہ تعین کریں گے۔ سرکاری مشینری کے کل پرزے کرپشن کا رونا روتے ہیں اور کاروباری لوگ اسے مگرمچھ کے آنسو کہتے ہیں۔ تبدیلی کے کمرے میں جب وہ نہیں ہوتے تو یہ کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ ضمیر کی خلش ہے جو انہیں چین نہیں لینے دیتی۔ جتنا مال بنایا ہے اس کی وضاحت نہ اپنی اولاد کو دے سکتے ہیں نہ کسی ادارے کو۔ اب یہ چاہتے ہیں کہ کسی طریقے سے نظام کی ٹریک بدلے اور یہ صاف ستھرے ہو کر سامنے آ جائیں۔ افسر شاہی والے ان کی غیر موجودگی میں کہتے ہیں کہ ان کا کاروباری مفاد تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ رئیل اسٹیٹ اور پرائیویٹ کمپنیوں والے ان دونوں کے گٹھ جوڑ کو ناسور قرار دیتے ہیں۔ وردی والے ان سب کو مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے گھورتے ہیں۔ سیاستدان ان کے پیچھے ہو جاتے ہیں اور باقی سب اردگرد۔ یہ ایک حقیقی منظر ہے اور ان کا یہ اکٹھ اس وقت ہوتا ہے جب رئیل اسٹیٹ والا کسی نئی ہائوسنگ سکیم کا ذکر کرتا ہے۔ سب اپنی کمر کے گرد لپٹے تولیے سنبھالتے اس کی طرف بھاگتے ہیں۔ جیسے پبلک ٹرانسپورٹ کی بس یا ویگن میں قوت باہ سے لے کر دانت درد کی ایک گولی پا پھکی بیچنے والا مرکز نگاہ ہو جاتا ہے۔ یہی مقام کپڑوں کی تبدیلی والے کمرے میں پراپرٹی ڈیلر کا ہے۔ ظاہر ہے ہر نئی ہائوسنگ سوسائٹی گڈ گورننس اور کرپشن کے معیار کا تعین کرتی ہے۔ سب کی فیس منافع‘ حصہ اور کمیشن اسی اعتبار سے بڑھ جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی نئی بڑی ہائوسنگ سوسائٹی کے دو کنال کا پلاٹ اس کی کارکردگی کا تعین کرے گا۔ اس طبقے کو سب سے زیادہ خطرہ عام آدمی سے نہیں بلکہ کسی متبادل معاشی طبقے کے ابھرنے سے ہوتا ہے جو اس کے کلب کی رکنیت حاصل کرنے کے وسائل کو نہیں رکھتا لیکن کلب کی رکنیت اپنا حق سمجھتا ہے۔ ماہر معاشیات قیصر بنگالی کا اس پر ایک تھیسس ہے۔ تھیسس سمجھ لیں ایک سوچا سمجھا اور جانچا ہوا خیال۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلی دو دہائیوں میں پنجاب میں ایک نئی کاروباری اشرافیہ کا ظہور ہوا ہے جس کے مفادات روایتی اشرافیہ سے بالکل مختلف ہیں۔ سرمایہ کا ارتکاز اس طبقے کے پاس ہونے لگا ہے اور یہ اس سرمائے کو باہر ابھرنے والی مارکیٹوں میں لگانا چاہتا ہے۔ اس کے پاس وہ انتظامی صلاحیت اور ستھرائی تو نہیں ہے کہ وہ عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرسکے‘ البتہ خطے میں خصوصاً انڈیا میں اسے یہ امکان نظر آتا ہے۔ میاں نوازشریف اس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ بات روایتی اشرافیہ کے مفاد کے بالکل خلاف ہے۔ تحریک انصاف ایک ایسی تبدیلی کا نعرہ لے کر آئی جس سے اس طبقے کے مفاد کو کسی طرح نقصان نہیں پہنچتا۔ یہاں اس طبقے نے تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اپنے مفادات کو ہم آہنگ کرلیا ہے۔ قیصر بنگالی کے بقول یہ نہیں ہے کہ میاں نوازشریف کے ساتھ یہ نیا طبقہ پسپا ہو جائے گا۔ اس کی گہری جڑیں پنجاب میں موجود ہیں۔ یہ عمران خان کو بھی اس تبدیلی کی طرف آنے پر مجبور کرسکتا ہے جو تبدیلی یہ نئی اشرافیہ چاہتی ہے۔