’’دہشت گرد‘‘ سینیٹر مشتاق کا تاحیات جسمانی ریمانڈ دیا جائے
آصف محمود
اسلام آباد سے اگلے روز ایک انتہائی خطرناک دہشت گرد گرفتار کیا گیا ۔ یہ اتنا بڑا دہشت گرد تھاکہ جب اسے عدالت میں پیش کیا گیا تو پولیس نے کہا اسے 30 دن کے لیے جسمانی ریمانڈ پر ہمارے حوالے کر دیا جائے کیوں کہ ہم نے اس سے بڑی غیر معمولی تفتیش کرنی ہے۔ دہشت گرد کے وکیل نے پولیس سے پوچھا کہ کیا آپ نے اس دہشت گرد سے ٹینک ، توپیں اور خود کش جیکٹیں بر آمد کرنی ہیں جو تفتیش کے نام پر یہ بندہ پورے ایک مہینے کے لیے آپ کے حوالے کر دیا جائے۔ دہشت گرد کا نام سینیٹر مشتاق احمد ہے اور ان کے وکیل اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر برادرم ریاست علی آزاد تھے۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ہجوم کو لے کر سفارت خانوں کا رخ نہیں کرنا چاہیے ۔ پولیس نے انہیں روکا ، یہ بھی درست ہے۔ روکنا چاہیے تھا ۔ لیکن کیا پورے نظام قانون میں کوئی اور دفعہ نہیں ہے جو مظاہرین پر لگائی جاتی؟ سیدھا دہشت گردی کا مقدمہ قائم کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ کیا واقعی اسلام آباد ، یعنی دارالحکومت کی انتظامیہ اور حکومت یہ سمجھتی ہے کہ سینیٹر مشتاق دہشت گرد ہے؟ اگر آپ ایک محترم سیاست دان کو گرفتار کر کے اس پر دہشت گردی کی دفعہ لگا دیتے ہیں تو کیا آپ دہشت گردی کے سارے تصور پر سوال نہیں اٹھا رہے؟ صبح شام سافٹ امیج کی غزل سنانے والوں میں سے کوئی ہے جو بتائے کہ دنیا کو آپ کیا پیغام دے رہے ہیں ؟ یہی کہ آپ کا سابق سینیٹر بھی دہشت گرد ہے؟ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جس اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر ریاست علی آزاد نے سینیٹر مشتاق کا مقدمہ لڑا، اس بار کے سینکڑوں نہیں تو بیسیوں وکلا آج بھی دہشت گردی کے مقدمات بھگت رہے ہیں۔ ایک وقت یہ بھی تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود میں ہائی کورٹ بار کا الیکشن ہو رہا تھا اور صدارت کے دونوں امیدوار برادرم زاہد محمود راجہ اور برادرم نوید ملک دہشت گردی کے مقدمے میں اڈیالہ جیل میں قید تھے۔ قانون پر بندہ قربان جائے کہ دہشت گردی کے ملزمان کا الیکشن ہائی کورٹ کے احاطے میں ہو رہا تھا۔ آدھے وکیل دہشت گردی کے ایک ملزم کے ساتھ ا ور آدھے دہشت گردی کے دوسرے ملزم کے ساتھ تھے۔دہشت گردی کے مقدمے یونہی قائم ہوتے رہے تو اگلی مردم شماری میں شہری کم اور دہشت گرد زیادہ ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ جب تک ملزم جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہو اسے ضمانت پر رہائی نہیں مل سکتی۔ عام مقدمات میں اس کی کل مدت دو ہفتے ہے مگر دہشت گردی کا مقدمہ بن جائے تو یہ مدت بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس نے اس مقدمے میں 30 دن کا ریمانڈ مانگا۔ سردست باقی باتیں چھوڑیے ۔ یہ ریمانڈ کے ظالمانہ قانون کی اصل حقیقت جان لیں۔ اس قانون کا ماخذ بھی برطانوی نو آبادیاتی نظام ہے۔ یہ اصطلاح اٹھارویں صدی کے آخر میں متعارف ہوئی اور بعد میں جب یہ قانون بر صغیر میں نافذ کیا گیا تو اس کا یہی مقصد تھا کہ کسی بھی گستاخ کو کسی بھی وجہ سے اٹھا کر نصف ماہ کے لیے حراست میں رکھ کر اس کو اور اس کے اہل خانہ کو وہ جسمانی ا ور معاشی سبق سکھا دیا جائے کہ بعد میں مقدمے سے بری بھی ہو جائے تو یہ سبق اس کے ساتھ جائے کہ انگلش سرکار کے حضور گستاخی کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ یہ وہ سفاک قانون ہے جس میں سچ جھوٹ سے قطع نظر آپ کسی بھی شخص پر مقدمہ قائم کریں اور تفتیش کے نام پر، قانونی طور پر اس شخص کو جسمانی ریمانڈ کی صورت میں ، اس کی آزادی سے محروم کر دیں۔ یہی قانون اپنی انہی سفاک نو آبادیاتی روایات کے ساتھ ہمارے فوجداری نظام میں بروئے کار آ رہا ہے کہ مقدمہ بڑا ہو یا چھوٹا، اکثر ریمانڈ دے دیا جاتا ہے۔اسے رویے کو مکینیکل ریمانڈ کہا جاتا ہے۔اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا اور اس کے بارے میںواضح اور دوٹوک قانون سازی کرنا پارلیمان کا کام تھا۔لیکن اس نے نہیں کیا تو اعلی عدالتوںنے اس معاملے کو دیکھا اور اس میں کچھ رہنما اصول وضع کیے۔ جیسے غلام سرور کیس میں جسٹس منیر خان نے فیصلے میں لکھا کہ مجسٹریٹ صاحبان ضابطہ فوجداری کی لازمی دفعات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریمانڈ دے دیتے ہیں۔انہوں نے لکھا کہ جسمانی ریمانڈ ایک معمول کی کارروائی سمجھ کر دے دیا جاتا ہے جیسے پولیس سے تعاون کیا جا رہا ہو۔ جسٹس منیر خان لکھتے ہیں کہ یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ مجسٹریٹ انسانوں کی آزادی سے ایک معمول کے طور پر کھیل رہے ہیں۔ جسٹس صاحب نے لکھا کہ ایسا کرتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں جیسے وہ کسی کو جوابدہ نہیں۔ چنانچہ ان کی رہنمائی کے لیے معزز عدالت نے کچھ اصول وضع کیے۔ان میں سے پہلا اصول یہ تھا کہ جسمانی ریمانڈ صرف اس وقت دیا جائے جب مضبوط اور غیر معمولی وجوہات موجود ہوں۔ ان ہدایات پرا ور اس فیصلے پر کتنا عمل ہو رہا ہے، یہ اب ایک تحقیق طلب کام ہے۔ کسی متعلقہ حکومتی وزارت کے پاس کچھ اعدادو شمار ہوں تب ہی اس سوال کا جواب مل سکتا ہے۔سنگین مقدمات میں یا غیر معمولی صورت حال میں ریمانڈ دیا جانا ایک قابل فہم بات ہے لیکن معمول کے مقدمات میں ریمانڈ گاہے غیر ضروری مشق معلوم ہوتی ہے جو نظام قانون کے لیے بھی اضافی بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ اس کا مقصد بھی وہی ہے جو نو آ بادیاتی دور میں ہوا کرتا تھا۔ کسی بھی گستاخ کو لمبے چوڑے تردد میں پڑے بغیر پکڑو اور مقدمہ ثابت کرنے سے پہلے ہی ، ریمانڈ کے نام پر اسے اس کی آزادی سے محروم کر دو۔ پولیس نے جن دہشت گردوں کو عدالت میں پیش کیا ان میں میڈیکل کے فائنل ایئر کی طالبات بھی تھیں۔ عدالت نے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا۔ یہ انتہائی قابل تعریف اقدام ہے ورنہ پولیس نے تو ان کا کیریر تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔اندازہ کیجیے ، کس بے رحمی سے ہماری حکومتیں لوگوں کی زندگی سے کھیلتی ہیں۔ میڈیکل فائنل ایئر کی بچیوں کو دہشت گرد بنا دیا ، کیونکہ انہوں نے فلسطین کے لیے احتجاج کیا تھا۔ریاست علی آزاد نے درست سوال پوچھا کہ اگر فلسطین کے لیے احتجاج کرنا دہشت گردی ہے تو کیا یہاں اسرائیل کے لیے احتجاج کرنا چاہیے؟ اچھا ہوا کہ عدالت نے سینیٹر مشتاق کا جسمانی ریمانڈ نہیں دیا ،تاہم میری تجویز تو یہ ہے کہ فلسطین کے لیے اگر کوئی احتجاج کرتا ہے تو اسے تاحیات جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دینا چاہیے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کو بھی ، کم از کم سینیٹر مشتاق احمد کی حد تک ، میری اس تجویز سے یقیناً اتفاق ہو گا۔