2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

’’مقبوضہ کشمیر کے مقبوضہ الیکشن‘‘

آصف محمود
25-09-2024

مقبوضہ جموں کشمیر میں انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا، بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق ٹرن آؤٹ 61.13 فیصد رہاان اعداد وشمار پر یقین رکھنے والے صحافی تجزیہ کار اسے اچھا ٹرن آؤٹ قرار دے رہے ہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں سیاسی عمل جاری رہنے کی خواہاں سیاسی جماعتیں بھی پرجوش ہیں کہ شایدگورنر راج سے جان چھٹے اوربقول بھارتی سول سوسائٹی کے رہنما اوربھارتی فضائیہ کے سابق وائس ائیرمارشل کپل کاک کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی یخ بستہ جیل کے کشمیری قیدیوں پر کچھ جبر اور گھٹن کی فضا کم ہو۔ اس الیکشن میںکانگریس کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی سابقہ حیثیت کی بحالی کا نعرہ کشمیریوں کے لئے پرکشش رہا تو ساتھ ہی ایک طویل عرصے بعد کسی بھارتی وزیراعظم کی آمد اور خطاب کا ’’چمتکار‘‘ بھی خوب رہا۔مقبوضہ کشمیر میں امن قائم ہوجانے اور راوی کے چین ہی چین لکھنے کا پیغام دینے کے لئے مودی جی سری نگر یوں پہنچے کہ وادی میں غیر اعلانیہ کرفیو لگا دیا گیا بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق نہائت سخت سیکورٹی انتظام اور فوجی پہرے میں اک عدد جلسے، ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ جگہ جگہ سڑکوں اور چوراہوں پر خار دار تاریں بچھا کر مقامی لوگوں کو مودی سے دور رکھا گیااور جلسہ گاہ کی طرف جانے والے تمام راستوں پر فوجی چوکیاں بناکربھاری نفری تعینات کی گئی۔آس پاس کی عمارتوں اور گھروں کی چھتوں پر اسنائپر ز کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں ۔ساتھ ہی شہر میں فوجی و دیگر سکیورٹی اداروں کی نفری بھی غیر معمولی طور پر بڑھادی گئی۔ شہر کا کاروباری مرکز جہاں مودی نے اپنی پارٹی ’’ بی جے پی ‘‘ کی انتخابی ریلی سے خطاب کرنا تھا وہاں دور دورتک سیکورٹی فورسز تھیں یا پھر سول کپڑوںمیں جلسہ سجانے اور نعرے لگانے والے سکیورٹی فورسز کے اہلکار۔کسی مقامی شخص اور ناپسندیدہ شخص کو آنے کی اجازت نہ تھی اس اہتمام کے ساتھ ہونے والے نام نہادعوامی جلسے میں نریندرمودی نے اپنی تقریر کا آغاز مضحکہ خیز انداز میں کیا، گجراتی لب ولہجے میں کشمیری بولتے ہوئے نریندرمودی نے کہا کہ ہم نے پارلیمان میں کہا تھا ناں کہ امن قائم کریں گے تو دیکھ لیجئے جموں کشمیر میں جمہوریت کا تہوار چل رہا ہے۔ پہلی بار ریاست میں دہشت کے سائے کے بغیر ووٹنگ ہوئی ہے۔ یہ ہم سب کیلئے خوشی اور فخر کی بات ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ ووٹ دینے کیلئے گھروں سے نکلے۔ یہ نئی تاریخ رقم ہوئی ہے اوریہ تاریخ عوام نے بنائی ہے۔ شائد اسے ہی جوتوں سمیت آنکھوں میں گھسناکہا جاتا ہے۔تحریک آزادی میں زخموں کے تمغے سجا کر جام شہادت نوش کرنے والوں کے جنازوں میں لاکھوں کشمیریوں کی شرکت گواہ رہی ہے کہ آزادی کے لئے بندوق اٹھانے والے ان کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ نریندر مودی کی یاداشت کمزور نہ ہوتی تو انہیں اکیس سالہ برہان وانی کے جنازے میں کشمیریوںکی والہانہ شرکت یاد رہتی۔مقبوضہ وادی میں شہداء کے جنازے ریفرنڈم ہیں۔مودی کو وہ ماں یاد نہیں کہ جسے بیٹے کی شہادت کی اطلاع ملی تو وہ رب کی حمد و ثناء بیان کرتے ہوئے گھر سے باہر آ کر شیرینی تقسیم کرنے لگی لوگ تعزیت کے لئے آتے تو منہ میٹھا کروا کر کہتی کیسی تعزیت کیسا پُرسہ ،شہید کب مرتے ہیں ، یہ تومیرے لئے اعزاز ہے کہ میں اک شہید کی ماں ہوں یہ لو منہ میٹھا کرو۔ اس الیکشن ڈرامے کے لئے مودی نے بڑے پاپڑ بیلے ، اسے علم تھا کہ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی دال نہیں گلنی اس لئے اس نے برسوں پہلے سے ہی منصوبہ بندی سے جموں میں ہندوؤں کی آبادکاری شروع کردی ۔ بالکل ویسے ہی جیسے اسرائیل یہودیوںکی آبادکاری کرتا آرہا ہے حیرت انگیز طور پر مودی نے بھی اسرائیل کو گرو مان کر پیچھے پیچھے چلنا شروع کیا۔اس پردوہزار اکیس میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کا دفتر بھی کہہ چکا ہے کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں انتظامی سطح پر تبدیلیاںاس خطے کے مسلمانوں اور اقلیتوں کا سیاست میں کردار محدود کر سکتی ہیں ۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کے لئے مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی مردم شماری2026ء تک ملتوی کر رکھی ہے۔کشمیر میں بیرونی ہندوؤں کوآباد ہونے کے لئے ترغیبات دی جارہی ہیں نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت 4.2ملین سے زائد غیر مقامی ہندوؤں کو کشمیر کا ڈومیسائل دیا جا چکا ہے۔ یہ اختیار تحصیلدار سطح کے سرکاری افسر کے پاس ہے جو ڈومیسائل کے خواہشمندوں کو مایوس نہیں کرتے اس پر مستزاد یہ کہ دستوری دہشت گردی سے آرٹیکل 35-Aکے خاتمے کے بعد اب غیر کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید نے پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اونے پونے داموں جائیداد یںخریدنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج بھی شامل ہے۔ گورکھا کمیونٹی کے 6600ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی جموں کشمیر کے ڈومیسائل دیئے گئے ہیں۔آبادکاروں کے لئے پانچ لاکھ گھر بنائے گئے ہیں ۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی الیکشن ناٹک میں مقبوضہ کشمیر کی سینتالیس نشستوں پر بی جے پی کو اداکاری کے لئے صرف انیس امیدوار ملے ہیں۔بے جی پی جوبھارت کے انتخابات میں’’ اب کی بار چار سو پار ‘‘کے گھمنڈی نعرے کے ساتھ دو تہائی اکثریت لینے کی دعوے دار تھی جیت تو گئی لیکن اسے حکومت بنانے کے لئے کئی جماعتوںسے بیساکھیاں لینا پڑیں۔ایسے میں مقبوضہ کشمیر میں شکست کا گھاؤنریندر مودی کی سیاسی کمر مزید جھکاسکتا ہے سو مودی جی نے بس حاضری لگائی بلٹ پروف جیکٹ پہن کر فوج کھڑی کی اور سپاہیوں سے خطاب کرکے لوٹ آنا کافی سمجھاالبتہ جموں جو شروع ہی سے ہندو اکثرئتی علاقہ رہا ہے وہاں کی جانے والی’’ جادوئی‘‘ حلقہ بندیوںنے جموں کی مسلم نمائندگی 32.43 فیصد سے کم کر کے 20.93 فیصد کر دی ہے۔پچھلی اسمبلی میں جموں کی 37 نشستوں میں سے 12 مسلم اکثریتی نشستیں تھیں۔ اب گھٹ کر 9 کر دی گئی ہیں ۔اس اہتمام کے بعد بھی بی جے پی کی شکست نوشتہ ء دیوار ہے اور اس دیوار پر ایک جملہ اور بھی ہے کشمیر بنے گا پاکستان۔۔۔