2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

’’۲۰ جنوری‘‘ دو فیصلوں کی سالگرہ کا دن!

ڈاکٹر احمد سلیم
20-01-2025

حکمرانوں اور رہنمائوں کی جانب سے کیے گئے فیصلے کسی ایک ذات کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے ہوتے ہیں ۔ اس لیے ان کے اثرات بھی نہ صرف پوری قوم پر پڑتے ہیں بلکہ بعض اوقات ایک درست یا غلط فیصلہ قوم کی تقدیر تبدیل کر دیتا ہے۔ آج بھی سال کے ہر دن کی طرح بظاہر ایک عا م سا دن ہے لیکن پاکستان کی تاریخ کے اوراق پلٹائیں تو اس دن پاکستان کی تاریخ کے دو اہم ترین فیصلے ہوئے ۔ایک غلط فیصلے نے پاکستان کے دو لخت ہونے میں اہم کردار ادا کیا اور وقت کے حکمران کے ایک درست فیصلے نے پاکستان کو ناقابل ِ تسخیر بنا دیا۔ ایوب خان کے دور میں شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات کے حق میں تحریک میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے بہت سے طالب علم بھی متحرک تھے۔بظاہر ان کا مقصد مشرقی پاکستان سمیت تمام صوبوں کی زیادہ سے زیادہ خودمختاری اور اختیارات کی صوبائی حکومتوں کو منتقلی تھا۔ ابھی نفرتیں ناقابل واپسی کی حد تک نہیں بڑھی تھیں اور اس وقت تک ان کے مطالبات میں نہ تو ’’ آزادی‘‘ کا مطالبہ شامل تھا اور نہ بغاوت۔ ایک اہم طالب علم رہنما ’’ امان اللہ اسدالزماں‘‘ نے ساتھیوں سمیت ڈھاکہ یونیورسٹی میں ’’۲۰ جنوری ۱۹۶۹ ‘‘ کو ہڑتال اور مظاہرے کا اعلان کیا جس کے جواب میں اس وقت کے گورنر مشرقی پاکستان ’’عبدل مومن خان‘‘ نے اس مظاہرے کو ہر قیمت پر روکنے کا اعلان کیا۔بہت سے طالب علم دفعہ ۱۴۴ کے باوجود ڈھاکہ میڈیکل کالج کے سامنے اکٹھے ہو گئے۔ لاٹھی چارج اور جھڑپوں کے دوران پولیس نے طالب علم رہنما ’’ امان اللہ اسدالزمان‘‘ کو قریب کے فاصلے سے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ جواب میں مظاہرین نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا اور انکی تعداد سینکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں میں ہو گئی۔ یہ سلسلہ اس حد تک بڑھا کہ دو ماہ کے اندر اندر، ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ کو ایوب خا ن کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ بلاشبہ بے شمار عوامل سقوط ڈھاکہ کے محرک بنے تھے لیکن مظاہرین کی بات سننے اور انکو مطمئین کرنے کی بجائے ان کے ساتھ ’’ آہنی ہاتھوں‘‘ کے ساتھ ’’ نبٹنے ‘‘ کے اس غیر متمدن اور احمقانہ فیصلے نے بنگالی عوام کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بونے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگلے کچھ دنوں میں دو مزید طالب علم انتظامیہ کے ہاتھوں مارے گئے اور تمام واقعات کا انجام ’’ سقوط ڈھاکہ ‘‘ کی شکل میں سامنے آیا۔ بنگلہ دیش میں آج بھی ہر سال ۲۰ جنوری کو ’’ شہید اسد ڈے ‘‘ قومی سطح پر منایا جاتا ہے۔ ایک دوسرا فیصلہ جو ۲۰ جنوری ۱۹۷۲ کو اس وقت کے حکمرانوں نے کیا وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق تھا۔ ویسے تو ’’ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن‘‘ 1956 میں قائم ہوا تھا لیکن اس کا مقصد کسی طور بھی ایٹم بم بنانا نہیں تھا۔ ۱۹۶۰ کی دہائی میں پاکستان کو مصدقہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ بھارت ’’ بھا بھا ایٹمی تنصیبات‘‘ میں ایٹم بم کی تیاری کی کوشش کر رہا ہے۔ اس وقت کے وزیر خارجہ مسٹر بھٹو نے ۱۱ دسمبر 1965 کو لندن کے ایک ہوٹل میں صدر ایوب خان اور ڈاکٹر منیر احمد کی ایک ملاقات کروائی اور دونوں نے مل کر ایوب خان کو کہا کہ ایٹمی اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونا پاکستان کی مجبوری بن چکا ہے۔ لیکن ایوب خان قائل نہ ہو سکے۔ اس کے بعد ہماری قوم نے ۱۹۷۱ دیکھا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت دعویٰ کر رہا تھا کہ اس نے دو قومی نظریے کو ختم کر دیا ہے۔اب آخر کار پاکستان کے ارباب اختیار اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ پاکستان کی سلامتی کے لیے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں پر یقین کرنے کی بجائے اپنے زور بازو پر انحصار کرنا ہو گا۔اس میں اہم ترین رول بلا شبہ بھٹو کا بھی تھا جو اب وزیر اعظم کی حیثیت سے فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ ۲۰ جنوری ۱۹۷۲ کو، ملتان میں پاکستان کے سرکردہ سائنسدانوں اور ارباب اختیار کی ایک میٹنگ وزیر اعظم بھٹو کی زیر صدارت ہوئی ، جسے ’’ ملتان میٹنگ‘ ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میٹنگ میں پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے کسی بھی قیمت پر ایٹم بم بنانے کا اصولی فیصلہ کیا اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے اس وقت کے سربراہ منیر احمد کی سربراہی میں سائنس دانوں نے اس سلسلے میں کام کا آغاز کیا۔ ان میں ریاض الدین، فیاض الدین اور فہیم حسین سمیت بہت سے سرکردہ سائنس دان شامل تھے ۔ اسی دوران میں ۱۹۷۴ میں بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر دیا۔ اسی برس ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور ’’ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آگے کی داستان سب کو معلوم ہے۔ بھارت نے جب 1998 میں پوکھران کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو شاید اسے غلط فہمی تھی کہ پاکستان بھارت کی اس بلا جواز اشتعال انگیزی کا جواب دینے کی ہمت نہیں کرے گا۔ لیکن اسکے اندازے غلط ثابت ہوئے اور پاکستان نے بھارتی ’’ دھمکی ‘‘ کا جواب ۲۸ مئی ۱۹۹۸ کو اپنے پہلے ایٹمی دھماکے ’’ چاغی اول‘‘ کی شکل میں دے دیا (یہ بھی حکومت وقت کا ایک درست فیصلہ تھا) ۔ ۳۰ مئی تک پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے جنکا مقصد صرف دفاع ِ پاکستان تھا ورنہ پاکستان تو روز اول سے چاہتا تھا کہ اس خطے میں ایٹمی دوڑ کا آغاز نہ ہو ۔اسی لیے 1978 میں پاکستان نے یہ تجویز کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت مشترکہ طور پر ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا اعلان کریں۔ پاکستان نے تجویز کیا کہ پاکستا ن اور بھارت ایک ساتھ NPT پر دستخط کر کے اپنی اپنی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے دیں۔ بلاشبہ پاکستان کے ایٹم بم کی تیاری سے ایٹمی دھماکوں تک بہت سی حکومتوں کا کردار رہا ہے لیکن اگر ۲۰ جنوری ۱۹۷۲ کو پاکستانی حکومت نے درست سمت میں فیصلہ نہ کیا ہوتا تو شاید ۱۹۹۸ میں ، پاکستان بھارت کی خواہش کے مطابق گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا۔ تایخ سے یہ سبق حاصل کرنا ضروری ہے کہ کس طرح ایک غلط یا درست اور بروقت فیصلہ قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔