تالی دنوں ہاتھوں سے بجتی ہے
احسان ناز
حکومت اوراپوزیشن کوکچھ ایسے نکات جن پر عمل کر کے قوم و ملت کی خدمت کی جا سکتی ہے ان پراکٹھے ہونا چاہیے ۔ آج وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ جب غیر ممالک کے سربراہان اوراعلی سطح کے وفود اسلام آباد میں آئیں اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت اسلام آباد میں ایسی کوئی ایکٹیوٹیز نہ کرے جس سے ایسا لگ رہا ہو کہ اسلام آباد کو فتح کرنے کے لیے کسی سیاسی پارٹی نے چڑھائی کی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملتمس ہوں کہ وہ کوئی بھی ایسا پروگرام جس میں کسی بھی ملک کے سربراہ یا تجارتی وفود نے پاکستان آنا ہو وہ اپوزیشن سے شیئر کریں اور خاص کر جب بھی کوئی غیر ملکی صدر یاوزیراعظم پاکستان کا دورہ کریں اس دورہ میں اپنے ساتھ اپوزیشن کے اراکین کو بھی ان کے استقبال میں شامل کریں تو ممکن ہے یہ رواج چل نکلے کہ جب بھی کوئی ملک میں غیر ملکی سربراہ موجود ہو تو کسی قسم کا احتجاجی مظاہرہ یا جلسہ جلوس نہ ہو۔ اس میں پہل حکومت کو کرنی ہے کہ اپوزیشن احتجاج کر سکتی ہے مگر ان انمخصوص جگہوں پر۔ تحریک انصاف نے جب جلسے کے لیے اجازت مانگی اسلام آباد میں تو کئی دو سال تک اجازت نہیں دی گی اگر اجازت اسلام آباد اور لاہور میں اجازت دی بھی گئیتو وہ جلسہ سے چند گھنٹے پہلے، جس سے پاکستان تحریک انصاف اچھی طرح انتظام کر نہیںسکی اور حکومت نے اجازت دینے کے باوجود جلسہ گاہ کو جانے والے تمام راستے کنٹینر لگا کر اور ہزاروں کی تعداد میں پولیس کے نوجوانوں کو کھڑا کر کر سیل دیا ۔ جب حکومت ایسے اقداماتکرے گی تو پھر اپوزیشن سے بھی کوئی بھلے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ تحریک انصاف کے لاکھوں کارکناں جو احتجاجی تحریک میں شامل ہوتے ہیں پولیس کی بربریت کا شکارہوتے ہیں۔ بہتر ہو گا پاکستان کے دیگر بڑے شہروں فیصل آباد سیالکوٹ گوجرانوالہ قصور ساہیوال اوکاڑہ ملتان بہاولپور ڈیرہ غازی خان جہلم اٹک کے علاوہ جتنے بھی بڑے بڑے اضلاع ہیں وہاں پر جلسہ کے لیے جگہ مخصوص کی جائے اور اس جگہ پر حکومت یا اپوزیشن کوئی پارٹی بھی جلسہ کرنا چاہے تو اسے درخواست دینے کے فوری بعد اجازتدی جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی جلسوں کے لئے ٹائم کوئی مقرر نہیں کیے جاتے تھے اورنا ہی 45 50 شرائط لگائی جاتی تھیں کیونکہ سیاسی پارٹیوں میں جلسے کوئی شادی بارات یا ولیمے کی دعوتیں نہیں ہوتی۔ ہونا تو یہ چاہیے حکومت کسی بھی سیاسی پارٹی کو جلسہ کرنے کی اجازت دیتی ہے تو اس پارٹی کے لیے سہولیات پیدا کرے تاکہ سیاسی کارکن آسانی سے جلسہ گاہ پہنچ سکیں لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اجازت بھی دے دی جاتی ہے اور پھر آنسو گیس کے بھی شیل ڈایریکٹ فائرکئے جاتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ اب تو ضعیف العمر خواتین کو بھی پولیس کسی بھی جلسہ جلوس میں دیکھتی ہے تو ان کو بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے۔پولیس پر حکومت کی طرف سے جو دباؤ ہوتا ہے بزرگوں کو بھی پولیس والے دھر لیتے ہیں اور پھر حکومت کے لیے جگ ہسائی کا سامان بنتے ہیں ۔ حکمران کنٹینر لا کر راستوں کو بلاک کریں گے تو پاکستان کے شہری جب کسی بھی کام کے لیے جب اپنے گھروں سے نکلتے ہیں تو انہیں یہ لگتا ہے کہ اب پاکستان کے ان بڑے شہروں میں بھی کراچی کی طرح بندرگاہیں بن چکی ہے جس پر سامان لینے کے لیے کنٹرینر لا تعداد سڑکوں ہیں جس سے ایک تو کنٹینر مالکان جو کہ ہال دوھائی دیتے ہیں کہ ہمارے کنٹینر بغیر کسی جرم کے پکڑ لیے جاتے ہیں اور ہمیں کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی جبکہ حکومت کا دعوی ہے خصوصی طور پر گزشتہ روز جو راولپنڈی میں تحریک انصاف کا احتیاج روکنے کے لیے کنٹینر جن راستوں پر لگائے ان کا بل کروڑوں روپے حکومت نے ادا کیا ہے اسی طرح جب بھی پاکستان تحریک انصاف پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں جلسہ یا جلوس یا احتجاجی مظاہرہ کرتی ہے تو اس کو ناکام بنانے کے لیے انتظامیہ کی طرف سے کروڑوں روپے کے بل حکومت کو پیش کر دیئے جاتے ہیں جبکہ حکومت نے پہلے ہی پولیس کے لیے بے انتہا رقوم امن و امان کے سلسلے میں رکھی ہوئی ہیں جس سے انہوں نے نئی گاڑیاں نئے آنسوگیس شیل اور ربڑ کی گولیاں خرید رکھی ہیں۔ پولیس مہذب بنے نہ تو راتوں کو دیواریں پھلانگ کے اور نہ ہی چادر اور چار دوائی کا پردہ چاک کرے۔ اس طرح پاکستان کی حکومت کی جو بدنامی ہو رہی ہے اس میں کمی آئے گی اور وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ جو کہ اپنے آپ کو خواتین کی نمائندہ سمجھتی ہیں اور ان کی بھی موجودگی میں جب ایسی کاروائیاں ہوں گی وہ بھی شرمندگی سے نہیں بچ سکیں گیں اس لیے میری گزارشات پر اگر عمل کر لیا جائے تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی عزت میں اضافہ ہوگا اور عوام اب جس طرح سے پولیس کو دیکھتے ہیں وہ نفرت بھری نگاہیں ہوتی ہیں اس سے بچنے کے لیے پولیس کو بھی اپنا رویہ پہلے سلام پھر کلام کو دوبارہ رواج دینا ہوگا۔ حکومت اس خوف سے کہ لوگ تحریک انصاف کے جلسوں جلوسوں احتجاج اور دھرنوں میں بھرپور شرکت نہ کریں آج کل پکڑ دکڑ کر رہی ہے اور جس کو بھی پکڑتے ہیں اس کے خلاف نہ تو کوئی ایف آئی ار اور نہ ہی کوئی مقدمہ ہوتا ہے اس لیے آئی جی پنجاب سے بھی میری گزارش ہے کہ سیاسی حکومتیں وہ مریم نواز شریف کی ہو وہ عثمان بزدار کی ہو یہ ختم ہو جاتی ہیں لیکن پولیس کا کام اور دیگر سرکاری محکموں کے کارکن اپنی نوکریوں پر بدستور قائم رہتے ہیں۔ لیکن ایک فرق ضرور پڑتا ہے کہ عوام پولیس کے رویئے کو اچھے اور برے لفظوں میں ضرور یاد رکھتے ہیں ۔