15 ستمبر ۔ جمہوریت کا عالمی دن
عبداللہ طارق سہیل
15 ستمبر کو پوری دنیا میں جمہوریت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 2007 میں اقوام متحدہ کی قرارداد کی منظوری سے 2008 میں پہلی بار منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد جمہوریت کی فروغ، جمہوری اقدار کی ترقی اور دنیا میں جمہوری حکومتوں کی حمایت شامل ہیں۔ جمہوریت کا لفظ یونانی الفاظ ’’ڈیموس‘‘ سے آیا ہے، جس کا مطلب ہے لوگ، اور ’’کراٹوس‘‘ کے معنی طاقت؛ لہٰذا جمہوریت کو ’’عوام کی طاقت‘‘ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ حکمرانی کا طریقہ جو عوام کی مرضی پر منحصر ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ڈکٹیٹروں سے زیادہ نقصان جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتوں اور اُن کے رہنمائوں نے دیا ہے۔ سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے اعلیٰ کار کے طور پر استعمال ہوتی آرہی ہیں، پاکستان کی جمہوری تاریخ کے پس منظر اور پیش منظر کو دیکھتے ہیں تو عجب تماشہ نظر آتا ہے۔ پارلیمنٹ سے ارکان اسمبلی کو اٹھایا گیا اس پر وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ارکان کو نقاب پوشوں نے نہیں پولیس اہلکاروں نے اُٹھایا۔ سرائیکی میں اس بارے میں کہاوت ہے کہ ’’موئی نی تے آکڑی پی اے‘‘ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ عذر گناہ بد تر از گناہ۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پارلیمنٹ لاجز کو سب جیل قرار دینے کی منظوری دی ہے مگر پارلیمنٹ لاجز بھی پارلیمنٹ کا ہی حصہ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سب جیل قرار دینا کیا اُس کے شایان شان ہے؟ جمہوریت کو ایسی چیز کے طور پر بہتر طور پر سمجھا جاتا ہے جو ہمارے پاس ہمیشہ زیادہ یا کم ہو سکتی ہے، بجائے اس کے کہ وہ ہے یا نہیں۔ موجود حالات میں پاکستان کے تمام سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکومت میں برسر اقتدار ہے یا اپوزیشن جماعتوں کی روپ میں پیش ہیں، کیا ان جماعتوں کا کردار جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ہے؟ کیا صرف ووٹ کے نام پر حکومت سازی کو جمہوریت کہتے ہیں؟ کیا ان جماعتوں میں مرکزی اور صوبائی جماعتیں تنظیمیں بند کمروں کی نوٹی فکیشن سے ہوتی ہے؟ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا جمہوریت کے نام پر بنائی گئی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت ہے؟ کیا ان جماعتوں میں اختلاف رائے کا اظہار ممکن ہے؟ اگرجواب نفی میں ہے۔ تو یہ جمہوریت نہیں، جمہوریت کے نام پر مذاق ہے۔ جمہوریت میں اظہار رائے آزادی پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ہے مگر خود جمہوری جماعتوں کے اندر سیاسی جماعت کے سربراہ کے فیصلے سے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ جمہوریت اور اُن کا حصہ ہوتے ہوئے خیبرپختونخواہ کا وزیر اعلیٰ کہہ رہا ہے کہ ہم افغانستان سے براہ راست مذاکرات کریں گے۔ ستم یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بھی علی امین گنڈا پور کے موقف کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ خیبرپختونخواہ میں سب سے زیادہ آپریشن ہوئے۔ بتایا جائے کہ خیبرپختونخواہ میں بد امنی، دہشت گردی، کرپشن، بیروزگاری کا خاتمہ کس کی ذمہ داری ہے؟ اور تحریک انصاف کے دور میں دہشت گردوں کو کس بناء پر رہا کیا گیا؟ افغانیوں کے دھڑا دھڑ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کس دور میں بنے؟ خیبرپختونخواہ میں مقامی سرائیکیوں پر سب سے زیادہ ظلم کس دور میں ہوا؟کیا سرائیکی بولنے والے انسان نہیں ہیں؟ عمران خان بتائیں سو دن میں صوبہ بنانے کا تحریری معاہدہ کہاں گیا؟ غریب طبقات خصوصاً پسماندہ علاقوں کے غریبوں کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں۔ عوام میں شعور کی بیداری ہی میڈیا کے مضبوط کردار کی عکاس ہے لیکن استحصالی جمہوریت کے فروغ میں میڈیا کا کردار ہمیشہ فعال رہا۔ میڈیا سے محروم اور پسماندہ طبقات خصوصاً پسماندہ سرائیکی وسیب کو بہت شکایات ہیں،بڑے شہروں میں معمولی سے واقعہ پر میڈیا طوفان اٹھا دیتا ہے اور کسی چھوٹے علاقہ میں قیامت بھی گزر جائے تو میڈیا کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ جیسا کہ پچھلے دنوں موسیٰ خیل بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد لوگوں کو دہشت گردوں نے بے دردی سے قتل کر دیا ، اس سے پہلے پنجاب کے نام پر بلوچستان میں سالہاسال سے لوگ قتل ہوتے آرہے ہیں، وزیرستان میں بھی پنجاب کے نام پر لوگوں کو قتل کیا گیا۔ میڈیا کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا کردار ادا نہیں کیا ،کسی نے مقتولین کے ورثاء سے ہمدردی کا اظہار نہیں کیا اور حکومت کی طرف سے بھی نہ انصاف ملا اور نہ ہی امداد ہوئی۔ 15 ستمبر جمہوریت کا عالمی دن حقیقی جمہوریت کے قیام کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس کیلئے سب سے زیادہ ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ حقیقی جمہوریت کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ دنیا بھر میں جمہوری حکومت کے مختلف ماڈلز ہیں۔ جیسے جمہوریت، آمریت جہاں ایک شخص حکومت کرتا ہے۔ اور oligarchy میںجہاں معاشرے کا ایک چھوٹا سا طبقہ حکومت کرتا ہو۔ اس کا مطلب درست طریقے سے سمجھا جائے تو جمہوریت کو ’’اکثریت کی حکمرانی‘‘ بھی نہیں کہناچاہیے۔ جمہوریت، کم از کم نظریہ میں، تمام لوگوں کی طرف سے، ان کی ’’مرضی‘‘ کے مطابق حکومت ہوتی ہے۔ابتدا میں براہ راست جمہوریت کی ایک شکل تھی۔ دوسرے لفظوں میں، عوام کی جانب سے حکومت کرنے کے لیے نمائندوں کو منتخب کرنے کے بجائے، ’’عوام‘‘ نے خود ملاقات کی، حکومت کے سوالات پر تبادلہ خیال کیا، اور پھر پالیسی کو نافذ کیا۔ لوگ اکثر ایسے ممالک کے بارے میں بات کرتے ہیں جو ’’جمہوریت‘‘ بنتے ہیں، ایک بار جب وہ نسبتاً آزاد اور کھلے انتخابات کا انعقاد شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن جمہوریت میں محض انتخابات سے کہیں زیادہ شامل ہوتا ہے، اور جب ہم یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی ملک کتنا جمہوری ہے۔کیا غیر جمہوری طاقتوں کی حمایت سے اقتدار سے پہنچنا جمہوریت ہے؟