2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

2019ء کے تین بڑے بحران

03-01-2019

2018ء جنگوں، ظلم و بربریت اور بحرانوں کی تاریخ رقم کرکے ختم ہو گیا۔ اس سال دنیا مختلف بحرانوں کے حل میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکی ۔شام سے عوام پورا سال مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور رہے ۔ تباہ شدہ کھنڈرات پر آتش و آہن کی بارش جاری رہی۔ گزشتہ موسم گرما میں ادلب میں لاکھوں انسانوں نے بدترین حملے برداشت کئے جس کی وجہ سے وہاں کے باسیوں کو آفت کا سامنا رہا۔ افریقہ میں جنونی سوڈان میں امن معاہدہ سے وہاں کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی مگر تاحال اس کی بھی بیشتر شقوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ اسی طرح مشرقی بنگال میں دس لاکھ روہنگیا مسلمان دوزخ کے کنارے جی رہے ہیں اور میانمار واپس بھجوائے جانے کا سوچ کر ہی ان کی روح کانپ جاتی ہے۔ اسی طرح 2018ء نے ایتھوپیا ‘ وینزویلا ‘ شام اور جمہوریہ کانگو کے لاکھوں انسانوں کو گھروں سے بے گھر ہوتا دیکھا اور جب ہم 2019ء کی طرف دیکھتے ہیں تو بھی ہمیں کم از کم تین بڑے بحران دکھائی دیتے ہیں،ماضی میں کیمرون وسطی افریقہ کے ممالک سے آنے والے مہاجرین کی جنت تصور کیا جاتا رہا ہے۔ نائجیریا سمیت تمام پڑوسی ممالک تنازعات کے باعث لوگ اس سرزمین پر عافیت تلاش کرتے تھے۔ 2019ء میں اس جائے پناہ میں بھی بحران کے زلزلے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔کیمرون کی حکومت نے لوگوں کو غیر مسلح کرکے علاقے سے فوج نکالنے اور دوبارہ استحکام اور اتحاد یکجہتی کے فروغ کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس حوالے سے کیمرون کے صدر نے ماضی میںدنگا فساد میں گرفتار کئے جانے والے کچھ لوگوں کی رہائی کا حکم بھی دیا ہے۔ 2019ء میں ہونے والے انتخابات کے دوران کشیدگی بڑھنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ کشیدگی نائجیریا تک پھیل سکتی ہے اگر ایسا ہوتا ہے یہ تباہ کن صورتحال ہو گی۔ مگر اس کے باوجود اقوام عالم نے ابھی تک کیمرون کو ہاٹ سپاٹ تک تسلیم نہیں کیا۔ متوقع بحران سے نمٹنے کے لیے انتہائی کم فنڈنگ کا اعلان ہوا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کیمرون متاثر ہو گا بلکہ وسطی افریقی علاقہ اور شمال مشرقی نائیجیریا کے لوگ بھی شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔ دوسرا بحران جس کا اقوام عالم کو 2019ء میں سامنا ہو گا وہ قحط کی طرف بڑھتا یمن ہو گا۔2018ء میں یمن کو بدترین جنگ کا سامنا رہا جس سے مقامی آبادی کی حالت بدترین ہو گئی ہے ۔ گزشتہ تین برسوں کے جنگ نے یمن کا بنیادی انفراسٹرکچر تو پہلے ہی تباہ کر کے رکھ دیا تھا، 20لاکھ شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔ یمن میں مصروف انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل مبتنبہ کرتی آرہی ہیں کہ اگر حالات کی بہتری کی طرف توجہ نہ دی گئی تو یمن میں قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھوک اور قحط یہاں کی زمین کے بنجر ہونے یا پھر قدرتی آفات کی وجہ سے نہ ہو گا بلکہ انسان کا اپنا پیدا کردہ ہو گا۔ یمن میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ بھوک سے انسان سسک سسک کر آہستہ آہستہ موت کی جانب بڑھتا ہے اور یہ موت نہایت اذیت اورعبرت ناک ہوتی ہے۔ گزشتہ ماہ سٹاک ہوم میں ہونے والے مذاکرات میں طویل سیز فائر پر غورو فکر ہوا مگر یہ سیز فائر اہم بندرگاہ حدیدیا تک ہی محدود ہے۔ یمن بھر میں لاکھوں بچے خواتین اور بزرگ یہاں تک کہ زخمی اور بیمار بھی جنگ سے شدید متاثر ہو ئے ہیں اس سیز فائر سے ان کو کیا ریلیف مل سکتا ہے یہ لوگ تو اب بھی عالمی برادری کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ 2019ء میں جنگ کی وجہ سے قحط کا خطرہ سنگین ہو گیا ہے جس سے لاکھوں مزید موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ اگر سٹاک ہوم میں ہونیوالے معاہدے کے تحت پورے یمن میں جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوا تو یمن میں 2019ء میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ جمہوریہ کانگو میں بدامنی کی چھوٹے چھوٹے علاقوں میں لگی آگ 2018ء پورے خطہ میں پھیل چکی ہے۔اتوری صوبہ میں قبائلی جھگڑے عروج پر پہنچ چکے ہیں لاتعداد مسلح گروہوں باہم لڑ رہے ہیں اور ملک کے وسطی اور مشرقی علاقے میں عام شہریوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ لوگ جب اپنے گھروں کو واپس جارہے ہوتے ہیں تو ان کو آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خانہ جنگی کی وجہ سے کانگو میں قحط پیدا ہو چکا ہے۔ 2017ء کی نسبت 2018ء میں عوام میں خوراک کا عدم تحفظ 100فیصد بڑھ چکا ہے 30دسمبر کو جب کانگو کے عوام نے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا تب عالمی میڈیا کی توجہ کانگو کے عوام پر مرکوز ہوئی۔ 2019ء میں بھی کانگو کا بحران اسی طرح نظرانداز ہوتا رہے گا اور صورتحال بدتر ہو جائے گی۔ لاتعداد لوگ فاقوں مر سکتے ہیں‘ جب تک پرتشدد کارروائیاں اور نقل مکانی نہیں رکتی لوگ مرتے رہیں گے۔ ہزاروں والدین بھوک سے اپنے بچوں کو مرتے دیکھنے پرمجبور ہیں۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کانگو کے عوام کو بہت تھوڑا ریلیف مہیا کر سکتی ہے۔ یہ بات ناقابل تصور ہے کہ آج کی جدید دنیا میں جب اقوام عالم کے پاس تمام تر وسائل اور وافر مقدار میں خوراک موجود ہے لاکھوں انسان بھوک سے مرجائیں۔ ان اموات کو دنیا مل کر روک سکتی ہے اور اگر ہم نہ روک سکے تو یہ ہمارے ضمیر پر بوجھ رہے گا۔ بشکریہ:الجزیرہ‘ترجمہ:ذالفقار چودھری