2 9 A M A N Z O R

g n i d a o l

63اے نظرثانی ،جسٹس نعیم لارجربینچ میں شامل؛ سپریم کورٹ میں بند دروازوں کے پیچھے کچھ نہیں ہو رہا:چیف جسٹس

02-10-2024

اسلام آباد (خبر نگار، آن لائن) سپریم کورٹ نے منحرف ارکان کا ووٹ شمار نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فریقین کے وکلا کو ہدایت کی ہے کہ امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں پارٹی پالیسی سے انحراف کے معاملے پر عدالت کی معاونت کریں ۔دوران سماعت چیف جسٹس ریما رکس دیئے کہ لگتا ہے کہ آرٹیکل 63اے کا فیصلہ تحریک عدم اعتماد کو غیر موثر بنانے کیلئے تھا ، جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہی ہوگا، ایک طرف رائے دی گئی منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے یہ تو تضاد ہے ۔ چیف جسٹس نے صدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستوں کو یکجا کرکے فیصلہ کرنے پر بھی سوالات اٹھائے اور ر یمارکس دیئے کہ ریفرنس پر رائے اور 184/3 دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں، دونوں کو یکجا کر کے فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے ؟، صدارتی ریفرنس پر صرف رائے دی جا سکتی ہے فیصلہ نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا دونوں دائرہ اختیار مختلف نہیں ہیں؟ کیا اس وقت عدالت نے دونوں معاملات کو یکجا کرنے کی وجوہات پر کوئی آرڈر جاری کیا؟ صدارتی ریفرنس پر صرف صدر کے قانونی سوالات کا جواب دیا جاتا ہے ، صدارتی ریفرنس پر دی گئی رائے پر عمل نہ ہو تو صدر کے خلاف توہین کی کارروائی تو نہیں ہو سکتی ۔ منگل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اورجسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے بنچ میں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس نعیم اختر افغان کو شامل کرنے اور اس بارے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس کا احوال بیان کیا اور کہاجسٹس منیب اختر کو درخواست کی گئی کہ بنچ میں آئیں، جسٹس منیب نے دوبارہ خط لکھ دیاجس میں اپناپرانا مؤقف دہرایا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا میں نے کمیٹی کو جسٹس منصور علی شاہ کو شامل کرنے کی تجویز دی لیکن جسٹس منصور علی شاہ نے بھی کمیٹی اور بنچ دونوں میں شمولیت سے انکار کیا، جسٹس منصورکا انتظار کیا لیکن اس کے بعد ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں بچا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے بنچز کو ڈسٹرب نہ کرتے ہوئے جسٹس نعیم افغان کو لارجر بنچ میں شامل کیا، اب سپریم کورٹ میں کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہوتا، اب لارجر بنچ مکمل ہے کارروائی شروع کی جائے ۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے بنچ پر اعتراض کیا تو چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ آپ کو آپ کی باری پر سنا یا جائے گا ۔ دوبارہ اعتراض پر چیف جسٹس نے علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے آپ کو پہلے دلائل دینے کا حق نہیں ہے ، پہلے جس نے نظر ثانی درخواست دائر کی ہے اس کو سنیں گے ، روسٹرم پر آپ کی ہی بار کے منتخب صدر کھڑے ہیں، کبھی تو جمہوریت پر چل کر دیکھیں۔ سماعت کے دوران وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل کی حمایت کی جبکہ پی ٹی آئی کے وکیل نے تاخیر سے نظر ثانی دائر کرنے کا نکتہ اٹھایا اور بتایا کہ وہ فیصلے کا دفاع کریں گے ۔عدالت نے مزید سماعت آج بدھ ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ فریق مخالف نے زائد المیعاد اپیل جمع کرانے کا اعتراض اٹھایا جبکہ اپیل کنندہ کا موقف ہے کہ تفصیلی فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے نظر ثانی درخواست تین دن کی تاخیر سے جمع کی گئی۔ رجسٹرار آفس کو ہدایت کی گئی کہ معلوم کیا جائے تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوا۔ حکمنامے میں کہا گیا کہ جسٹس منیب اختر نے بنچ کا حصہ بننے سے معذرت کی، ججز کمیٹی کی دوبارہ میٹنگ بلا کر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایاگیا۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 18 مارچ کو سپریم کورٹ بار نے درخواست دائر کی، 21 مارچ کو چار سوالات پر مبنی صدارتی ریفرنس بھجوایا گیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کیا ریفرنس اور آپ کی درخواستوں کو ایک ساتھ سنا جا سکتا تھا، آرٹیکل 63 اے کے فیصلے میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ووٹ نہ گنے جانے پر بندہ نااہل ہوگا؟ یہ فیصلہ تو معاملے کو پارٹی سربراہ پر چھوڑ رہا ہے پارٹی سربراہ کی مرضی ہے وہ چاہے تو اسے نااہل کردے ، پارٹی سربراہ اگر ڈیکلریشن نااہلی کا بھیجے ہی ناں تو کیا ہوگا؟ اس پر شہزاد شوکت نے کہا پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاعدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جاسکتا یعنی آرٹیکل 95 غیرفعال ہوگیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹنگ کی مشق ہوتی ہی اس لیے ہے کہ اسے گنا بھی جائے ۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ اقلیتی فیصلے کو بھی چیلنج کرنا چاہیں گے ؟ پارلیمانی پارٹی کوئی اور فیصلہ کرے ، پارٹی سربراہ کوئی اور فیصلہ کرے تو کیا ہوگا؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ اراکین اسمبلی اگر پارٹی سربراہ یا وزیراعظم یا وزیراعلی کو پسند نہیں کرتے تو کیا ہوگا؟۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس کا ایک حوالہ اقلیتی فیصلے میں موجود ہے ، بلوچستان میں ایک مرتبہ اپنے ہی وزیراعلی کے خلاف اس کے اراکین تحریک عدم اعتماد لائے تھے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کے ساتھ دیکھیں کیا ہوا؟ ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا سندھ ہاؤس حملے سے متعلق درخواست سپریم کورٹ میں آئی تھی؟۔ پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پیپلزپارٹی بھی صدارتی ریفرنس کی مخالف ہے ،۔بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہم نظرثانی اپیل کی مخالفت کریں گے ۔صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ منحرف رکن کی نااہلی کے لیے پارلیمانی پارٹی کے ہیڈ کا ڈیکلریشن کا پورا طریقہ کار ہے ۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی فیصلے میں ڈیکلریشن کا ذکر کیا آئین میں صرف ڈی سیٹ کا ذکر ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ منحرف اراکین کے بارے میں برطانیہ اور امریکا کے حوالہ جات دئیے جائیں، حال ہی میں لیبر پارٹی کی ایک رکن نے اپنے وزیراعظم کے خلاف تقریر کی، اس کی حیثیت آزاد رکن کے طور پر تبدیل کردی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ویسے بھی پی ٹی آئی کے سینیٹر ہیں آپ خود دلائل دیں یا پی ٹی آئی کی طرف سے دلائل دیں آپ کو اجازت ہے ہم آپ کو آپ کی باری پر سنیں گے ۔