چولستان کے مسئلے کب حل ہونگے؟ 2
ظہور دھریجہ
آج خواجہ فریدؒ کی روہی بعض شکاریوں کیلئے آماجگاہ بنی ہوئی ہے یہ لوگ شکار کی غرض سے روہی میں آتے ہیں ۔ یہ تلور کا شکار کرتے ہیں جبکہ مقامی شکاری ہرن کا، شکاریوں نے روہی کے ہرن کی نسل ختم کر دی ۔ ہر سال سائبریا سے آنیوالے قیمتی پرندے تلور کو پناہ نہیں مل رہی ۔ خوف نے کونجوں کو سخی سرور کے ’’پھیرے مارنے‘‘ سے محروم کر دیا مگر بادشاہوں کے بادشاہ خواجہ فریدؒ روہی میں موت نہیں حیات بانٹتے تھے ۔ بندوقوں کی دہشت نہیں محبت کا درس دیتے تھے ۔ ان سے روہی کے انسان تو کیا چرند پرند بھی محبت کرتے ہیں ۔ مولانا رکن الدین اپنی کتاب مقابیس المجالس میں لکھتے ہیں کہ روہی کے انسان تو کیا حیوان بھی آپ سے مانوس تھے ۔ جب خواجہ فرید سئیں کا روہی میں قیام ہوتا تو یہ سب چرند پرند آپ کے گرد جمع ہوتے ایک اور مقبوس میں مولانا رکن الدین نے لکھا کہ خواجہ سئیں نے فرمایا ’’روہی میں خاموشی سے سکون ہے اور سکوت ہے ۔ اللہ کو یاد کرنے کا لطف آتا ہے اسی لئے میں روہی آتا ہوں۔‘‘ خواجہ فریدؒ کے روہی کے سفر کا جائزہ لیں تو آپ کو حیرانی ہوگی کہ آپ نے کسی ایک دن کیلئے بھی شکار کا قصد نہیں کیا اور نہ ہی آپ سیر و تفریح کی غرض سے روہی گئے ۔ آپ ریت سے اَٹے روہی کے لق و دق صحرا میں جب بھی گئے عبادت کی غرض سے گئے ۔ روہی میں انہیں محبوبِ حقیقی کا قرب ملتا تھا ۔ وہاں آپ سکون اور فرحت محسوس کرتے تھے ۔ اسی لئے تو اپنی شاعری میں روہی کو جگہ جگہ دُعا دی۔ ایہا روہی یار ملاوڑی ہے شالا ہووے ہر دم ساوڑی ہے ونجٖ پیسوں لسڑی گاٖوری ہے گھن اپنْے سوہنْے سئیں وو کنوں ایک اور جگہ روہی کو پیار سے ’’سُنجٖڑی‘‘ اور پُر وحشت‘‘ کہا اور ’’سنجٖڑی‘‘ اور پُروحشت‘‘ نے خواجہ سئیں کا دل کیسے موہ لیا؟ وہ خواجہ کہہ رہے ہیں ۔ لطیف پیرائے کا انداز ملاحظہ فرمائیں: پُر وحشت سُنجٖڑی روہی اے دل دیوانی موہی روہی میں اگر بارش نہ ہو تو پھر وہاں رہنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ پیاس ، ویرانی او رموت روہی میں عام ہو جاتی ہے ۔ ان حالات میں انسان اور جانور روہی سے ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ روہی کے بے آب اور لق و دق صحرا سے سینکڑوں میلوں کی مسافت اور وہ بھوکے پیاسے ، کتنے دردناک اور کربناک لمحے ہوتے ہیں؟ اس کا تصور بھی موت سے کم نہیں ، خواجہ سئیں نے فرمایا: ملک ملھیر نہ وٹھڑم ، ہے ہے رو رو سندھ ڈٖو ااواں ڑی آواں جب روہی میں پانی ختم ہو جاتا ہے تو ہر طرف ویرانی چھا جاتی ہے ۔ اس وقت کوئی چیز اچھی نہیں لگتی اور آدمی کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اسے کیا کرنا چاہیے ایسے موقع پر خواجہ فریدؒ کہتا ہے: چیتر بہار خزاں ڈٖسے جھوک سبھو ویران ڈٖسے نہ کوئی علم نہ بان ڈٖسے روہی ڈٖین ڈٖریندی اے اس کے باوجود یہ عزم بھی صرف ’’روہی واس‘‘ کے پاس ہے کہ وہ ہر حال میں روہی رہنا چاہتا ہے۔ اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنی روہی کی قربت اسے اپنی جان سے بھی عزیز ہے اور خواجہ فرید کا درس بھی یہی ہے کہ دھرتی کی محبت میں جان بھی قربان کر دینی چاہئے۔ روہی محض بشارت درسوں مرسوں بھرسوں مول نہ ڈٖرسوں بیدرداں دی دلڑی ترسوں ڈٖینہ راتیں گھئوں مئوں ہے یار (ختم شد)