سیاسی ماحول اگرچہ بہت گرم ہوتا جا رہا ہے اور اس پر مسلسل لکھ بھی رہاہوں لیکن اسکی حدت شاید اتنی نہیں جتنی ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی شدید گرمی یا سردی انسانی زندگیوں کے لئے خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔پاکستان اس تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔واٹر ایمرجنسی پر تو حکومتی اجلاس ہو چکا ہے، اگرچہ دیر سے ہوا لیکن کسی کو خیال تو آیا۔اسکے نتیجے میں جہاں دیگر اقدامات لئے جائیں گے ملک میں ڈیموں کی تعمیر اورجلد از جلد اس بارے میں فیصلے بہت اہم ہوں گے۔ یہ ممکن نہیں کہ پانی کے ذخائر بڑھانے کی بات ہو اور کالا باغ ڈیم کا ذکر نہ چھڑے اور پھر اس پر خیبر پختونخواہ اور سندھ کی جماعتیں روایتی سیاست نہ کریں۔جنرل مشرف کے پاس ابتدائی دنوں میں ایک بھرپور موقع تھا کہ وہ اس ڈیم کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے لیکن انہوں نے بھی جنرل ضیاء کی طرح اس ایشو کو سیاسی سٹنٹ کے طور پر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اور اسکے متبادل بھاشا ڈیم کا خواب دکھایا جس کے کئی افتتاح ملک کے صدور اور وزراء اعظم کر چکے ہیں لیکن یہ ڈیم ہے کہ بن ہی نہیں رہا۔کبھی ہم خود کچھ نہیں کرنا چاہتے کبھی ہم فنڈنگ کی کمی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ترجیحات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے ہم ہر اس منصوبے پر اربوں روپے مہینوں میں خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں جو ماحولیاتی آلودگی میں مزید اضافہ کرے، جس میں میٹرو منصوبے، بڑی بڑی عمارات، موٹر ویز اور ہائیڈرو پاور پلانٹس شامل ہیں۔درختوں کی کٹائی اور پانی کے ذخائر کی کمی کی وجہ سے ہم انسانی زندگی اور زراعت پر ہونے والے منفی اثرات کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر سالانہ اربوں ڈالر نقصان اٹھاتے ہیں۔اگر سیلاب سے ہونے والے نقصانات شامل کر لیں تو صورتحال مزید تشویشناک ہو جاتی ہے۔ہر سال ہم میسر پانی کا صرف دس فیصد ذخیرہ کر پاتے ہیں ۔ نوے فیصد پانی سیلاب کی صورت میں نقصان پہنچاتا ہوا یا ذخیرے کی گنجائش نہ ہونے کے باعث سمندر کی نظر ہو جاتا ہے ۔پانی کے ضیاع کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں کوئی ادراک نہیں ہے۔اور جس بے دردی سے ہم نے پانی ضائع کیا ہے اسکے نتائج ہماری کئی نسلوں کو بھگتنے پڑیں گے۔ 1951ء میں ہمیں فی کس5260 کیوبک میٹر پانی میسر تھا ، اب یہ خطرناک حد تک کم ہو کر 908کیوبک میٹر رہ گیا ہے۔پانی کے ذخائر کا نہ ہونا اور آبادی میں تیزی سے اضافہ صورتحال کومزید ابتر کر رہا ہے۔ایک اور تشویشناک ماحولیاتی آلودگی شور ہے ،جس کا ہم شکار ہیں اورہمیں اس کا معمولی سا احساس بھی نہیں ہے۔ خاص طور پر لائوڈ سپیکر کابے تحاشا وقت بے وقت استعمال ہماری نفسیاتی صحت پر بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔اس بارے میں قوانین ہونے کے باوجود نہ تو کوئی اقدام کیا جاتا ہے اور نہ ہی لوگ اس بے وقت شور کے نقصانات سے آگاہ ہیں۔ لائوڈ سپیکر پر کوئی بھی مقرر اس بات سے قطعی متفکر نہیں ہے کہ آس پاس میں کوئی مریض یا طالبعلم ہے ۔ مریض کس حال میں ہے اور طالبعلم کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے۔اسی طرح سے گاڑیوں میں پوری آواز سے جاری موسیقی کس طرح اعصاب پر اثر انداز ہو رہی ہے اس بارے میں بھی آگاہی نہیں ہے۔ ایک افسوسناک خبر یہ ہے کہ پاکستان میں فی کس درختوں کی تعداد دنیا میں کسی بھی ملک سے کم ہے۔ آکسیجن کی ضرورت پوری کرنے کے لئے درختوں کی فی کس تعداد کم از کم آٹھ سے نو ہونی ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں یہ تعداد کم ہو کر پانچ رہ گئی ہے۔خیبر پختونخواہ میں ایک کاوش کی گئی ہے جس کااثرہونے میں وقت لگے گا۔ اسی طرح سے اگر آج ہم درخت اگانے کے حوالے سے مہم شروع کریں تو شاید اگلے دس سالوں میں اس کمی کو پورا کر پائیں۔دیگر وجوہات کے ساتھ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کی صورتحال گھمبیر ہونے کی ایک سب سے بڑی وجہ درختوں کی کمی ہے۔اگر ہم خطے کا جائزہ لیں تو فی کس درخت بھارت میں 28،چین میں 102، روس میںسب سے زیادہ4461درخت ہیں۔دنیا بھر میں مختلف ضروریات کے لئے سالانہ پندرہ ارب درختوں کی کٹائی کی جاتی ہے جبکہ اندازاً پانچ ارب درخت اگائے جاتے ہیں ۔اس طرح سے سالانہ دس ارب درختوں کی کمی واقع ہو رہی ہے اور اگر بڑھتی ہوئی آبادی کا تناسب مد نظر رکھیں تو صورتحال بہت تیزی سے خرابی کی طرف بڑھ رہی ہے۔گرین ہائوس گیسوں کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔جب سے گرین ہائوس گیسوں کے بارے میںریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا ہے گزشتہ ماہ دنیا میں کاربن ڈائی آکسا ئیڈ تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔اس سے قبل دنیا میں صنعتی انقلاب کے وقت 1880 ء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں اتنی تیزی سے اضافہ دیکھا گیا تھا۔ موجودہ سطح اس سے 46 فیصد زیادہ ہو چکی ہے۔ماہرین اس سلسلہ میں مسلسل اضافے سے پریشان ہیں جس کا مطلب ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے حوالے سے کاوشیں خاطر خواہ نتائج نہیں دے رہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور اسکی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے، بین الاقوامی معاہدے ہو رہے ہیں کانفرنسز کا انعقاد کیا جا رہا ہے لیکن جتنے بھی وعدے وعید اور معاہدے ہو رہے ہیں ان پر عملدرآمد کی صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہے۔گرین ہائوس گیسز کے اخراج کے حوالے سے امریکہ کو سب سے زیادہ مطعون کیا جاتا ہے کہ وہ بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد میں لیت و لعل سے کام لیتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعد صورتحال مزید خراب ہوئی ہے ۔ انہوں نے آتے ہی پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور کلین پاور پلان کے منصوبے سے بھی دستبردارہو گئے۔2014 ء میں ہونے والے گرین ہائوس گیسز کے اخراج کے روک تھام کے لئے طے پانے والے پروٹوکول کے حساب سے 2030 ء تک اسکو کم تر سطح پر لانے کا طے کیا گیا تھا لیکن ابھی تک ہونے والی پیش رفت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثر ممالک اس ہدف کو حاصل نہیں کر پائیں گے۔