کیا کمال شخص ہے ۔ کبھی پر امید کرتا ہے کبھی مایوس۔ خلاف توقع کر گزرنے والا۔وہ بیان دینے والا جو سیاسی مصلحت کا اسیر کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔چومکھی لڑتا ہے لیکن تندی اور تیزی میں کمی نہیں آتی ۔ایک ہی بیانیہ سینکڑوں بار دہراتا ہے ۔لیکن نہ خود تھکتا ہے نہ لوگ ۔ بے شمار الزامات کے باوجودطبقہ در طبقہ لوگوں کی توقعات بدستور اس سے وابستہ ہیں ۔ عمران خان نے لاہور میں بھرپور جلسہ کیا اور اس کے ساتھ ہی تنقید اور تبصروں کے سیلاب کے در کھل گئے۔ٹی وی ٹاک شوز کو تو اب ’ ’شاک شوز ‘ ‘ کہنا زیادہ ٹھیک لگتا ہے۔زیادہ سے زیادہ جھٹکے دینے والے تبصرے اور تجزیے کاٹ دار جملوں کے ساتھ نہ بولے جائیں تو نہ چینل کی ریٹنگ بڑھتی ہے نہ مبصر کی۔اوراگر اس میں کوئی ایسا تڑکا لگا دیا جائے کہ پروگرام مثبت یا منفی حوالے سے تادیر زیر بحث رہے تو چینل اور پروڈیوسر کی چاندی ہے۔ مبصرین اورپارٹیوں کے متعلقین تو خیر براہ راست متاثرین میں سے ہیں سو ان کی بات الگ لیکن عام طبقوں میں بھی عمران خان کے جلسے، شرکاء کی تعداد تقریر کی لمبائی اور گیارہ نکات پر ڈھیر ساری باتیں ہورہی ہیں۔کچھ لوگ جلسے کو کامیاب بلکہ سات سال پہلے کے جلسے سے بھی بہتر قرار دیتے ہیں ۔کچھ اسے ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں اور کچھ سیاسی کامیابی سے۔بھانت بھانت کی بولیوں میں اصل حقیقت کا تجزیہ مشکل تر ہوجاتا ہے کیوں کہ کسی نہ کسی طرح تجزیہ کارعام آدمی کی رائے پر بہرحال اثر انداز ہوتے ہیں۔کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگیاں رکھنے والے تو خیر ایک طرف لیکن وہ اکثریت جو کوئی سیاسی وابستگی اور جماعتی عصبیت نہیں پالتی، عمران خان اور تحریک انصاف کے اس جلسے اور تقریر کو کامیاب بلکہ مستقبل گیر سمجھتی ہے۔ اسی مینار پاکستان کے سائے میں30 اکتوبر 2011ء کے جلسے اور ریلی نے تحریک انصاف کے مخالفین کی نیندیں حرام کردی تھیں۔اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے۔2013ء کے انتخابات کے بعد عمران خان کو پے در پے کئی دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں اہم ترین 2013 ء کے انتخابات میں متوقع بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکنا تھا۔اس غیر متوقع نتیجے نے جسے شکست بہرحال نہیں کہا جاسکتا، تحریک انصاف پر دباؤ ڈالا اور اس دباؤ میں اس نے کچھ غلط فیصلے کیے جس میں اسلام آباد کا لانگ مارچ اور دھرنا بھی شامل تھا۔حقیقت یہ ہے کہ سنجیدہ فکر طبقہ ،جس نے عمران خان سے بہت توقعات وابستہ کرلی تھیں، اس دھرنے کے دوران بہت مایوس ہوا اور بہت سے لوگ غلط فیصلوں پر کھل کر تنقید کرتے نظر آئے ۔خان صاحب اور تحریک انصاف کے لیے بہترین صورت یہ تھی کہ وہ نتائج قبول کرکے ،کے پی کے کو ایک مثالی صوبہ بنا دیں جیسا کہ ان کا دعویٰ بھی تھا۔لیکن ان کی توانائیاں پہلے ڈھائی تین سال الیکشن کمیشن کو جانبدار ثابت کرنے، پینتیس پنکچر اور انتخابی نتائج کو چیلنج کرنے میں لگی رہیں۔ اس کوشش کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ نہ الیکشن کمیشن اپنی کارکردگی اور نظام کی شفافیت کو ثابت کرسکا بلکہ تحقیق میں بڑی فاش غلطیاںاور ناقص کارکردگی بھی سامنے آگئی۔دوسری طرف نون لیگ اپنی جیت کو بے غبار اور شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرنے میں کامیاب نہیںہوسکی ایک پرچھائی ہمیشہ اس پر سایہ کیے رہی ۔اور تیسری طرف تحریک انصاف یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ2013 ء کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر من مانے نتائج کے لیے اداروں اور سیاست دانوں نے مل کر دھاندلی کی تھی۔فریق تین تھے اور تینوں اپنے مقاصد میں ناکام رہے۔ عمران ہار ماننے والا شخص نہیں۔اس کے اندر پیدائشی لڑاکا ہے۔جو انصاف اسے اس نظام سے نہ مل سکا، اس کا موقع اسے قدرت نے پاناما لیکس کی صورت میں عطا کردیا۔سچ یہ ہے کہ عام آدمی تو عام آدمی مبصرین اور سیاست دان بھی شروع میں یہ اندازہ کرنے میں ناکام رہے کہ پناما بڑے برج الٹنے کا دوسرا نام ہے۔لیکن عمران نے شروع ہی میں اعلان کردیا کہ شریف خاندان پھنس گیا ہے اور وہ اس سے نہیں نکل سکے گا۔اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی ساری توجہ دو طرف مبذول کردی۔کے پی کے میں باقی ماندہ مدت کے دوران کارکردگی اور پناما۔یہ کریڈٹ عمران کو جاتا ہے کہ اس نے مالی بدعنوانی اور کرپشن کو ایک بڑا مسئلہ بنا کر قوم کے سامنے لا کھڑا کیا ورنہ سیاست دان سے لے کر نچلے اہل کار تک سب اسے اپنے حق کے طور پر منوا چکے تھے اور لوگوں نے کرپشن کو ایک چلن اور ناگریز مجبوری کے طور پر قبول کرلیا تھا۔تحریک ِ انصاف نے اس چلن کے خلاف آواز بلند کی۔مخالفوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور پناما کے ذریعے دھڑن تختے شروع کردیے۔عام آدمی تو کیا ،نون لیگ کے رہنماؤں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ پانامہ اور اقامہ ان کے گلے کی ہڈی بن کر رہ جائیں گے۔کیا کوئی چند ماہ پہلے پیش گوئی کرسکتا تھا کہ نواز شریف ہمیشہ کے لیے ملکی سیاست سے باہر ہو جائیں گے۔کیا یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ خواجہ آصف سیاسی طور پر مستقبل میں اس طرح محض ایک بھولا بسرا منظر ہوکر رہ جائیں گے۔نون لیگ کو اس کا ادراک ہی نہیں ہوسکا۔ویسے بھی نون لیگ کیا سمجھتی ہے؟کیا وہی سنجیدہ طبقہ جو عمران خان کی بہت سی چھوٹی بڑی باتوں پر نکتہ چینی کرتا ہے ،کیا اس طرف سے آنکھیں بند کرلے کہ ملک کا وزیر اعظم باپ اپنے بیٹے کی کمپنی میں تنخواہ دار ملازم ہے ؟وہ بھی غیر ملکی کمپنی میں؟کیا یہ منظر دیکھ کر ہر غیرت مند پاکستانی کو منہ پھیر لینا چاہیے کہ ملک کا وزیر خارجہ عرب امارات کی ایک کمپنی میں ملازمت کرتا اور تنخواہ وصول کرتا ہے؟ ’’کوئی شرم ہوتی ہے۔ کوئی حیا ہوتی ہے ‘ ‘ کے جملے کیا لوٹ کر اپنے کہنے والے پر پورے نہیں اترتے؟ بلا شبہ عمران خان کے کریڈٹ پر بہت سی باتیں ہیں جو لوگ یہ بات کہتے رہے ہیں کہ عمران خان کا پڑا لکھا حامی طبقہ اس سے ٹوٹ گیا ہے اور مایوس ہوچکا ہے ۔انہیں اس کا ٹھیک مطلب بھی سمجھ لینا چاہیے۔اس طبقے کو یا عمران خان کی چند پالیسیوں سے عدم اتفاق ہے ،یا ان کے دائیں بائیں نظر آتے کچھ چہروں کی موجودگی پر ۔یا انہیں کے پی کے کی حکومت کی متوقع کارکردگی (جو یقیناً اس سے بہتر ہونی چاہیے تھی )پر عدم اطمینان ہے، یا سیاسی مجمع بازی کے انداز اور طور طریقوں پر اعتراض ہے۔لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔وہ آج بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ملک اور قوم کے لیے جو خلوص عمران خان میں ہے وہ کسی اور سیاست دان میں نہیں۔وہ آج بھی اس بات کے قائل ہیں کہ عمران میں بڑے رہنما کی بہت سی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔انہیں آج بھی یاد ہے کہ جب ایم کیو ایم کے ظلم اور بربریت پر یہ سارے مبصرین اخبارات اور چینلز گونگے کا گڑ کھا کر بیٹھتے تھے تو جابر کو للکارنے والا اکیلا عمران ہی ہوتا تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ امریکی پالیسیوں اور منافقت پر واشگاف بات کرنے والا صرف عمران ہی تھا اور ہے ۔وہ کھلی آنکھوں دیکھتے ہیں کہ عمران کسی طرح کی کرپشن میں کبھی ملوّث نہیں رہا اور نہ اسے برداشت کرتا ہے۔انہیں پتہ ہے کہ الطاف ،زرداری اور نواز شریف کے برعکس عمران نے کبھی مہاجر،سندھ پنجاب یا پختون کارڈ نہیں کھیلا۔یہ طبقہ عمران سے بالکل الگ نہ ہوا تھا نہ ہوسکے گا۔ان کے پاس کوئی اور متبادل ہے ہی نہیں۔اگر آپ کے خیال میں ہے تو اس کانام بتا دیں ؟ تین تین ،چار چار بار آزمائے ہوئے منافق، دوغلے ،کم ہمت اوربے حمیت لیڈروں کو کیا ایک بار پھر آزمایا جائے؟ پھر اسی گرداب میں جاپھنسیں جس میں تیس سال سے چکر کھا رہے ہیں۔ کیوں نہ اس شخص کو ایک بار آزما لیا جائے جوہار نہیں مانتا ۔ جس کے خلوص کی گواہی دل دیتا ہے ۔ایک صوبے کے لیے نہیں‘ ایک ملک کے لیے‘ایک قوم کے لیے ۔