بھارتی حکومت جہاں مستقبل میں عوام کی بنیادی سہولیات کو یقینی بناتے ہوئے پانی اور بجلی کی وافر فراوانی کے لیے مجموعی طور پر 33 ہزار میگاواٹ پن بجلی کی پیداوار اور ڈیموں کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری رکھے ہوئے ہے ، وہیں سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصوں میں آنے والے مغربی دریاؤں پر بھارت کے بنائے جانے والے سینکڑوں ڈیموں پر وزارت آبی وسائل کے اعلیٰ حکام نے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے مستقل خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ پلاننگ کمیشن نئی دہلی سے منظوری شدہ پن بجلی اور ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے بھارتی 5 سالہ منصوبہ بندی پر مشتمل دستاویزات کے مطابق بھارت نے گذشتہ سال 2017ء کے اختتام تک مجموعی طور سینکڑوں منصوبوں کی منظوری دے رکھی تھی جن میں سے درجنوں منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں جن میں 330 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کا متنازعہ منصوبہ کشن گنگا ہائیڈروپاور پراجیکٹ، 900 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کا بگلیہار ڈیم اور زیر تکمیل متنازعے منصوبے پکل دل، نیمو بازگو، کلنائی اور لوئر کلنائی شامل ہیں۔ ان دستاویزات کی ایک کاپی جو کہ روزنامہ 92نیوز کے پاس محفوظ ہے ، ان کے مطابق بھارت نے پانچ سالہ منصوبے کے دوران دریائے سندھ، چناب اور جہلم پر مجموعی طور پر 200 سے زائد منصوبوں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ان دریاؤں کے بہاؤ میں ناقابل یقین حد تک کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ تاہم وزارت خارجہ، وزارت آبی وسائل اور اس سے منسلک اداروں کے کان پر ابھی جوں تک نہیں رینگی اور متعلقہ وزارتوں کے اعلیٰ حکام بھارت کے منصوبوں پر کوئی مربوط حکمت عملی اپنانے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق بھارتی حکومت نے دریائے سندھ پر مجموعی طور پر 190 سے زائد چھوٹے ، درمیانے درجے اور بڑے پن بجلی اور آبی ذخائر کے منصوبوں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے جبکہ مجموعی طور پر 12 بڑے منصوبے دریائے چناب اور جہلم پر تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے حصے کے دریاؤں پر جن بڑے منصوبوں کے نام درج ہیں، ان میں مقبوضہ کشمیر کے علاقوں میں 450 میگاواٹ کا بگلیہار ٹو، 600میگاواٹ پیداواری صلاحیت کا کیرو ہائیڈرو، 520 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کا کیوار ہائیڈرو، 330 میگاواٹ کا کشن گنگا، 1000 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کا پکل دل، 690 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کا رتلے ، 240 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کا کیرتھل-I اور 93 میگاواٹ کا گاندرے بل شامل ہیں۔ دستاویزات کے مطابق بھارت نے منصوبوں کی تعمیر کے لیے 1500 ارب بھارتی روپے مختص کر رکھے ہیں۔ اس حوالے سے جب آبی امور کے ایک اعلیٰ حاضر سروس افسر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے موجودہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے پاکستانی اداروں کو اس معاملے پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ منصوبوں کی تکمیل کے بعد پاکستان میں مغربی دریاؤں کے بہاؤ پر نا قابل یقین حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی زراعت اور پن بجلی کی پیداوار کو ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے ۔