پنجابی زباں کی وہ بھارتی شاعرہ جس نے ’’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘‘ جیسا مقبول گیت اور ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ جیسی مشہور اور متنازعہ سوانح حیات لکھی تھی اس امرتا پریتم نے عالمی کانفرنس کے دوران ایک سندھی ادیبہ سے پوچھا تھا کہ ’’کیا سندھ کی عورتیں بھی عشق کرتی ہیں؟‘‘ اس سندھی ادیبہ نے اپنی امرتا پریتم کو جواب دیتے ہوئے کہا تھا’’سندھی عورتیں نہ صرف عشق کرتی ہیں بلکہ اس عشق سے زیادہ پرخطر عشق کرتی ہیں جو تم نے ساحر لدھیانوی کے ساتھ کیا‘‘ امرتا پریتم کی آنکھوں نے ممبئی اور الہاس نگر کی ان ہندو سندھی عورتوں کو دیکھا تھا جن کی ساری زندگی گھر اور مندر کے درمیاں گزر جاتی ہے۔ امرتا پریتم نے ان سندھی عورتوں کو نہیں دیکھا جو دیہاتوں میں رہتی ہیں اور ’’کارو کاری‘‘ والی قاتل رسم کے باوجود اپنے محبوب سے ملنے کے لیے سرد اور سیاہ راتوں میں اپنے گاؤں کی سرحد کراس کرجاتی ہیں۔ یہ تصور کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ وڈیرہ شاہی کے وحشی ماحول میں صرف چند گھڑیوں کے لیے اپنے عاشق سے ملاقات کرنے کے لیے وہ عورتیں کس قدر خطرہ مول لیتی ہیں۔ اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ جب سندھ کے دیہاتوں میں کوئی عورت مشکوک انداز سے گھر سے کہیں دور جاتی نظر آتی ہے ‘ تب اس کے بارے میں کوئی تفتیش نہیں کی جاتی۔ اس کو فوری طور پر ’’کاری‘‘ قرار دیکر قتل کیا جاتا ہے اور جاگیرداری کلچر اس عورت کی نعش پر کسی کو رونے کی اجازت تک نہیں دیتا۔ سندھ اسمبلی میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی ہوئی ہے مگراس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محض قانون بنانے سے کلچر ختم نہیں ہوتا۔اصل بات قانون نہیں کلچر ہے اور قانون کو کلچر بننے کے لیے بہت وقت کی ضرورت ہے۔ ہم نے جتنے بھی جدید قوانین بنائے مگر اصل قانون پھر بھی کلچرکا چلتا ہے۔ سندھ میں تعلیم اور میڈیا کی وجہ سے کافی شعور بیدا ر ہوا ہے مگر غیرت کی وجہ سے ہونے والے قتل عام کو روکنا ان وزیروں کے لیے بھی ممکن نہیں جن کے بیٹے اور بیٹیاں؛ بھانجیاں اور بھتیجے برطانیہ اور امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ وہ نوجوان اسلام آباد اور کراچی میں ماڈرن ترین لباس پہنتے ہیںمگر ان کو بھی معلوم ہے کہ جب وہ گاؤںمیں جائیں گے تو انہیں پردے کا خیال کرنا پڑے گا۔ وہاں عورتوں کو دوپٹہ اور مردوں کو اپنا سر ٹوپی سے ڈھانپنا پڑتا ہے۔ وہاں پردہ کلچر ہے۔ اس کلچر کو صرف لیکچر سے تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ وہ کلچر بہت مضبوط ہے۔ اس کلچر میں ان انسانوں کی جڑیںبہت گہری ہوتی ہیں۔ یہ کلچر جنہیں ہم کچھ بھی کہیں مگر یہ کلچر ان لوگوں کی زندگی ہے۔ اس کلچر میں صرف کاروکاری نہیں ہے۔ اس کلچر میں ان کے اقدار اور وہ پیار بھی شامل ہیں جنہیں لوک کہانیوں میں سجا کر گایا جاتا ہے۔ سندھ میں لوک کہانیاں صرف سسی پنوں اور عمر ماروی تک محدود نہیں۔ سندھ میں ان افراد کے بارے میں بھی بہت ساری لوک کہانیاں موجود ہیں جنہوں نے بغاوت کی ۔ ان افراد میں بہت سارے کردار اخلاقی اعتبار سے سندھ کے معاشرے سے میل نہیں کھاتے مگر ان کو اپنی بغاوت کی وجہ سے بڑی محبت کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے۔آپ کو ہر قبیلے میں ایسی کہانیاں ملیں گی جنہیں سن کر آپ حیران رہ جائیں گے۔آپ کو وہ کہانیاں تصوراتی افسانے لگیں گی مگر اس معاشرے میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے ان کہانیوں کے کرداروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ معاشرہ متضاد لوگوں سے وجود میں آتا ہے۔ اس معاشرے میں ایسی عورتیں بھی تھیں جن کو خاندانی شان و شوکت یا موروثی ملکیت کے لیے شادی کے حق سے محروم رکھا جاتا تھا۔ وہ اپنی ساری زندگی عبادت میں گزار دیتی تھیں۔ وہ کسی سے شکایت نہیں کرتی تھیں۔ وہ ہر وقت قرآن شریف پڑھا کرتی تھیں اوران کے لیے مشہور ہوتا تھا کہ ان کی شادی قرآن سے ہوگئی ہے۔ ایسے پروپیگنڈا کے حوالے سے بی بی سی جیسے اداروں نے غلط رپورٹیں پیش کیں۔ انہوں نے سندھ کے معاشرے کا ہولناک منظر پیش کیا مگر حقیقت کچھ اور تھی۔ حقیقت یہ تھی اس کلچر میں تھوڑے بہت ایسے واقعات بھی رونما ہوتے تھے مگر سندھ کے دیہاتی معاشرے میں محبتیں بھی ہوتی تھیں اور وہ محبتیں آج بھی ہوتی ہیں۔ اکثر معاشروں کی طرح سندھ کے دیہی معاشرے میں بھی مردوں کی اکثریت بے وفا ہوتی ہے۔سندھ میں عورتوں کے دل وفا سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ عورتیں اپنی محبت کی کہانی کسی سے بیان نہیں کرتیں۔ ان عورتوں کو ان عوامی گیتوں میں اپنے جذبات کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ عورتیں آج بھی موبائل فون پر ان گیتوں کو محبت سے سنتی ہیں۔سندھی زباں کے چینلوں میں خبروں کے چینلوں سے زیادہ کلچرل اور موسیقی والے چینل بہت مقبول ہیں۔ ان چینلوں پر آسان اورسادہ سی زبان میں محبت کے بہت سارے گیت گائے جاتے ہیں۔ نوجوان عاشق ان گیتوں کو بڑی آواز میں سنتے ہیں اور ان گیتوں پر خطرناک جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔ اکثر ان گیتوں کے الفاظ روایتی اخلاق کے خلاف بھی ہوتے ہیں۔ جب کوئی عوامی فنکار اپنا نیا البم ریلیز کرتا ہے تب اس میں ایسا گیت بہت مقبول ہوجاتا ہے: ’’یہ گلی کسی کی جاگیر نہیں یہ گلی میرے دلبر کی ہے‘‘ جب ایسا گیت بلند آواز میں بجتا ہے تو ایک فساد پیدا ہوتا ہے۔ اس فساد میں انسانی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔ سندھ کے دیہاتی ماحول میں محبت بہت خطرناک ہے۔یہ خطرہ زیادہ تر وہ عورتیں اٹھاتی ہیں جو بظاہر بہت سادہ صورتوں والی ہوتی ہیں۔ ان عورتوں کو عوامی موسیقی والے عشقیہ گیت بہت بے چین کردیتے ہیں۔ وہ اپنے محبوب سے ملنے کے لیے گاؤں کھیتوں میں جاتی ہیں۔ جب رات کو دیرسے ایک عورت گھر سے نکلتی ہے تو وہ اپنی زندگی داؤ پر لگا کر نکلتی ہے۔ وہ چوروں سے زیادہ احتیاط سے کام لیتی ہیں۔ ایک آہٹ ان کے لیے موت کا پیغام بن سکتی ہے۔ مگر ان کی سانسوں میں عوامی موسیقی کے گیت بجتے ہیں ۔ وہ سب خطرات بھول کر آگے بڑھتی ہیں۔ ان کو محبت کی یہ صدائیں سونے نہیں دیتیں: ’’میں تیرے انتظار میں ہوں میں تیرے پیار میں ہوں میرے دلبر میرے جانی مجھے دے جاؤنشانی‘‘ ان گیتوں میں ایسے گیت بھی ہیں جن کے تراجم اخبار میں پیش کرنا بہت مشکل ہے۔ مگر اکثر گیت بہت رومانوی ہوتے ہیں۔ ’’تیرے پراندے سے مجھ کو پیار ہے میرا تم سے اقرار ہے جب تک جیتا رہوں گا تب تک تیرے پیار میں گیت گاتا رہوں گا‘‘ ان گیتوں کے سر ایسے ہوتے ہیں جیسے سر جنوبی پنجاب کے عوامی فنکار سرائیکی موسیقی میں سجاتے ہیں۔ سندھ کے دیہاتی ماحول میں محبت کے نغمے ان سادہ انسانوں کے سینوں میں طوفان برپا کردیتے ہیں۔ وہ نتائج کی پروا کیے بغیر عشق کی راہوں پر قدم اٹھاتے ہیں۔ سندھ کے غریب لوگوں کی محبتیں اس سماج کا بہت بڑا سچ ہیں۔ وہ سچ میڈیا میں بہت کم آتا ہے۔ میڈیا کو صرف محدود حقائق معلوم ہوتے ہیں۔ میڈیا صرف ان واقعات کو پیش کرتا ہے جو اتفاق سے اسکینڈل بن جاتے ہیں۔ سندھ کی عورتیں اس لیے عشق نہیں کرتیں کہ وہ اسکینڈل بن جائیں۔ وہ اپنی محبتوں کو بہت چھپا تی ہیں۔ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر ان کے عشق کا افسانہ عام ہوگیا تو ایک بہت طوفان آجائے گا اور اس طوفان میں کچھ نہیں رہے گا۔ سندھ میں محبت بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس حقیقت کو ہر کوئی جانتا ہے۔ مگر حقیقت میں اس حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں ممکن ہے: ’’دل ہے کہ مانتا نہیں‘‘ اس سرکش دل کے سبب سندھ کے سماج میں کسانوں کے بیٹے اور خاص طور پر کسانوں کی بیٹیاں محبوب کی قربت حاصل کرنے کی بہت بڑی قیمت ادا کرتی ہیں۔ میں مستنصر حسین تارڑ صاحب کے حقیقت بھرے افسانوں کا پرستار ہوں۔ ان افسانوں میں لندن کی حسین صبحوں اور پیرس کی خوبصورت شاموں کا تذکرہ دل کو موہ لیتا ہے۔ مگر میرا دل چاہتا ہے کہ تارڑ صاحب کبھی ان محبتوں کے بارے میں بھی قلم اٹھائیں جن کے جرم میں سندھ اور جنوبی پنجاب کی جوانیاں خطرناک خوابوں کا تعاقب کرتے موت کے موڑوں سے ملتی ہیں۔ سیاست نے ہمارے معاشرے کو اپنی مٹھی میں قابو کر رکھا ہے۔ صبح کی ابتدا سیاسی خبروں سے ہوتی ہے اور دن کی انتہا سیاست کی سازشی سرگوشیوں کی نظر ہوجاتی ہے۔ مگر معاشرے میں صرف سیاست نہیں۔ معاشرے میں میلے عوام کی اجلی محبتیں بھی ہیں۔ صرف سیاست ہمارے سماج کی ترجمان نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں وہ محبتیں بھی ہیں جو زندگی کا بہت بڑا سہارا ہیں۔ سیاست بہت اہم ہے۔ عمران خان کی فکر سے بھری ہوئی لیکچر نما تقریر بھی اہم ہے۔ زرداری کے داؤ پیچ بھی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ میاں نواز شریف کا یہ نعرہ پنجاب میں بھلے مقبول ہو کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ مگر ہم دماغ کی دنیا سے نکل کر کبھی سینے کی اس سرحد میں بھی داخل ہوجائیں جہاں کسی حکمران کے آنے اور جانے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس دنیا میں ایک مجبور عاشق اپنے مغرور محبوب سے صرف اتنا پوچھتا چاہتا ہے: ’’مجھے اپنے دل سے کیوں نکالا؟‘‘