حبیب جالب (مرحوم) میرے سینئیر دوست تھے۔ بالعموم شینیز لنچ ہوم ، کافی ہائوس یا پاک ٹی ہائوس میں ان سے ملاقات رہتی تھی۔ اگرچہ پاک ٹی ہائوس میں بھی ٹائروں اور ٹیوبوں کی دکان کھلنے والی تھی، لیکن چند اہلِ قلم کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں پاک ٹی ہائوس بند ہونے سے بال بال بچ گیا۔ جناب حبیب جالب شینیز لنچ ہوم اور کافی ہائوس کو ترجیح دیتے تھے کیونکہ یہاں گاہکوں کا رش کم ہوتا تھا۔ البتّہ جب کبھی نئی نظم یا غزل کہتے تو پاک ٹی ہائوس کا چکر ضرور لگاتے کہ وہاں سامعین کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔حبیب جالب بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ غزل میں اُن کا انداز روایتی تھا لیکن روایتی زبان اور اسلوُب میں بھی چونکا دینے والے اشعار کہہ لیتے تھے۔ لیکن شہرت اُنھیں مزاحمتی شاعری سے ملی۔ ثقہ قسم کے شعراء مزاحمتی شاعری کو کوئی خاص درجہ نہیں دیتے اور پراپیگنڈہ کہہ کر ایک طرف کر دیتے ہیںلیکن عوامی مقبولیت کا انحصار ادبی تھیوریوں پر نہیں ہوتا۔ قبولیت عامہ کے اپنے ہی dynamics ہیں۔جو نقادوں کی آراء سے بے نیاز ہوتی ہے۔ اگر آپ ایک کالم میں اچھے شعراء اور دوسرے کالم میں مقبول ِ عام شعراء کی لسٹ بنائیں تو ان لسٹوں کا تقابل آپ کو حیرت میں مبتلا کردے گا۔ بہر حال ذکر ہو رہا تھا جناب حبیب جالب کا جن کی اصل پہچان اُن کی مزاحمتی شاعری سے ہے۔ ایسی شاعری صرف شاعر ہی کی نہیں بلکہ ایک مخصوص صورتِ حال کی محتاج بھی ہوتی ہے۔ وُہ صورتِ حال جس میں عوام سیاسی گھٹن محسوس کریں۔ آزادی سے لکھ بول نہ سکیں ۔ جمہوری اقدار نہ ہوں یا بہت کمزور ہوں۔ ملک میں غربت ہو اور لوگ حکومت ِوقت سے نالاں ہوں۔1958ء کے مارشل لاء کے بعد ملک میں ایوب خان کی حکومت تھی۔ نواب ملک امیر محمد خان (مرحوم) گورنر تھے۔ اُنہیں کسی غیر ملکی مہمان کی استقبالیہ تقریب کے لئے ادا کارہ و رقاصّہ نیلو کی ضرورت پڑ گئی۔ نیلو نے کسی وجہ سے آنے سے انکار کر دیا تو نواب صاحب کی رگ ِنوابیت پھڑک اُٹھی۔ وُہ انکار کے عادی نہ تھے۔ نیلو کے ساتھ زبردستی کی گئی تو اُس نے خودکشی کے ارادے سے بہت سی خواب آور گولیاں کھالیں۔ بہرحال وُہ زندہ رہی اور حبیب جالب کو بھی نئی زندگی بخش گئی۔ اورپھر اُنھوں نے وُہ نظم لکھی جس نے ان کی شہرت میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ ؎ تُو کہ نا واقف آدابِ غلامی ہے ابھی/رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے چند سال بعد یہ نظم فلم "زرقا" میں مہدی حسن خانصاحب نے گائی اور نیلو پر ہی فلمائی گئی۔1965ء کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ہوا اکھڑنے لگی۔ بھٹو صاحب کی حکومت مخالف تحریک زور پکڑنے لگی۔ جس کے نتیجے میںایوب خان نے استعفیٰ دے دیا۔ حبیب جالب کی کچھ مزاحمتی شاعری اِس دور میں بھی لکھی گئی۔ نیلو کے واقعے کے بعد کوئی قابلِ ذکر واقعہ پیش نہ آیا جو کسی انقلابی نظم کا عنوان بنتا۔ ایسے اوقات میں بھی وُ ہ بے کار نہیں بیٹھتے تھے بلکہ غزل میں طبع آزمائی کرتے رہتے تھے۔ ایوب خان ہی کے دور کا ایک واقعہ ہے۔ ایک روز حبیب جالب دوستوں کے ساتھ کافی ہائوس میں بیٹھے تھے۔ میں بھی تھا۔ جالب صاحب تازہ غزل سنا رہے تھے۔ اچانک کافی ہائوس کے سامنے ایک پولیس وین رُکی، جس میں سے چند اہل کار نکلے۔ وُہ تیزی سے اندر آئے اور جالب صاحب کو پکڑ کر لے گئے ۔ ہم سب پریشانی میں یہ منظر دیکھتے رہے۔ اگلے روز پتہ چلا کہ کرشن نگر لاہور میں چند روز پہلے جالب صاحب نے اک بد قماش شخص بابو وارث کو قتل کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نے نواب صاحب سے کہا کہ آپ نے حبیب جالب کو قتل کے مقدمے میں گرفتار تو کروا دیا ہے لیکن عدمِ ثبوت کی بناء پر وُہ بری ہو جائیں گے۔ یہ سُن کر نواب صاحب نے فرمایا، " چھُٹ تے ویسی پر اوس دی گھسیٹ تے خوب ہو ویسی ناں۔ مُڑ اوس نوں عقل تے آجاسی"۔ نواب صاحب اکثر اِس فارمولے پر عمل کرتے تھے۔ جس سے ناراض ہوتے اُسے کسی جھوٹے مقدمے میں گرفتار کروا دیتے تاکہ اُس کی گھسیٹ ہو جائے۔حبیب جالب کہا کرتے تھے کہ جیل ان کا دوسرا گھر ہے۔ چنانچہ ہمہ وقت جیل جانے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اگر کچھ عرصے تک پولیس گھر نہ پہنچے تو خود مقامی SHO کو فون کر کے کہا کرتے تھے ، " یار! تم مجھے بھول ہی گئے ہو۔ یاروں سے ایسی بے وفائی اچھی نہیں"۔ جس کے جواب میں SHO کہتا آپ نے بھی تو کئی ماہ سے کوئی تازہ شاعری نہیں کی۔" وُہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ کچھ عرصہ سنت نگر میں میرے ہمسائے بھی رہے۔ اور پھر یوں ہوا کہ بھٹو صاحب نے 1973ء کا آئین بنا لیا۔ جالب صاحب جو عرصے سے کسی ISSUE کی تلاش میں تھے، انہیں ایشومل گیا۔ انھوں نے اِس آئین کے خلاف ایک دھوں دھار نظم لکھ ڈالی جو دیکھتے ہی دیکھتے عوام میں مقبول ہوگئی۔ یعنی وُہی نظم "میں نہیں مانتا" اب آپ 1973ء کے آئین کے بارے میں حبیب جالب کے نظریات ملاحظہ فرمائیں، " وُہ کہتے تھے کہ اِس آئین میں غریبوں کی نمائندگی کا کوئی بندوبست نہیں۔ اب اسمبلی میں صرف فیڈلز، سرمایہ دار اور وُہ لوگ پہنچیں گے جنھیں غریبوں کے مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ آئین برطانوری طرز کا ہے جس میں حکمران صرف منتخب ارکان ہی ہو سکتے ہیں یعنی جو ووٹ اکٹھے کر لے وُہ حکمران ۔ اب اِس غریب اور جاہل ملک میں دولت مندوں کے لئے ووٹ لینا نہایت آسان ہے۔ اکثر نشستیں تو آبائی نشستیں ہیں۔ وُہ ہر حال میں ان سیاسی خاندانوں کے پاس رہیں گی۔ کچھ نشستیں سرمایہ دار لے اڑیں گے اور یُوں ایک ایسا حکمران طبقہ وجود میں آئے گا جو ملک کو یر غمال بنا کر لُوٹے گا اور غریبوں کی حالت روز بروز بگڑتی جائے گی۔ قانون سازی اور حکمرانی دو الگ الگ شعبے ہونے چاہئیں۔ اگر قانون ساز ہی حکمران ہوں گے تو وہ صرف اپنے طبقے کے لئے قانون سازی کریں گے۔ لہٰذا حکمران و ہ ہونے چاہئیںجو بے داغ کردار کے مالک ہوں۔ جنھیں ملکی مسائل کا علم ہو۔ غریبوں کی حالت سدھار سکیں اور کرپشن سے دور ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ خوبیاں اُن لوگوں میں تو ہیں نہیں جو ہر الیکشن کے بعد اسمبلیوں پر قابض ہو جاتے ہیں۔ حیرت ہے کہ کلرک ہونے کے لئے تو میٹرک ہونا ضروری ہے لیکن عوام کی نمائندگی کا حق ہم ان لوگوں کو دے دیتے ہیں جو اکثر جاہل ، بد کردار ، عوام دشمن ، بے حِس ، ظالم اور کرپٹ ہوتے ہیں۔ بس یہی وُہ نظام ہے جسے میں نہیں سمانتا۔ یہ نظام صرف امیروں کے گھروں میں روشنی کرتا ہے۔ انھیں کو تمام سہولیات دیتا ہے ۔ غریب سے لا تعلق ہے۔ غریبوں کو صرف ووٹ لینے اور ملوں میں کام کروانے کیلئے رکھا ہوا ہے۔ یہ نظام ایک ایسی صبح کی طرح ہے جو روشن نہیں ہے بقول فیض ؎ یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر/کہ انتظار تھا جس کا یہ وُہ سحر تو نہیں حبیب جالب کا کہنا تھا کہ فیض نے تو یہ نظم تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان پر لکھی تھی لیکن میںاِن اشعار کا اطلاق 1973ء کے آئین پر کرتا ہوں۔ مجھے ایسا آئین چاہیے جو عوام کو زمینداروں ، سرمایہ داروں، کرپٹ افسروں، حاکموں کے گماشتوں اور کرپٹ لوگوں سے آزادی دے سکے۔ میں ایسے آئین کو نہیں مانتا: دیپ جس کا محلّات ہی میں جلے/چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے آج حبیب جالب دُنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی نظم پہلے سے بھی زیادہ RELEVENT ہو گئی ہے۔ آئیے مل کر سوچتے ہیں کہ ہمیں کس قسم کے آئین کی ضرورت ہے۔