اپنے بے لحاظا لکھے ہوئے طنزومزاح کی بابت تو مجھے کچھ نہیں کہنا چاہیے ، البتہ اپنے بے تحاشا پڑھے ہوئے طنزومزاح سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ اس عادتِ بد نے میرے لکھنے کی رفتار کے ساتھ ساتھ میرے دماغ کو بھی خراب کر رکھا ہے۔ کوئی بھی نونہال ، خوش خیال قلم کار تحریری یا زبانی مشاورت کا تقاضا کر بیٹھے تو اسے یوسفی اور ابنِ انشا بننے کے مشورے دینے لگتا ہوں۔ یعنی جو کام خود نہیں کر سکا، اس کی دوسروں سے توقع لگا کے بیٹھ جاتا ہوں۔ اس کے نتائج بھی آج تک خاطرخواہ برآمد نہیں ہوئے۔اکثر نوجوان میری سرکھپائی کے بعد یا تو کسی دوسرے ہمدرد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں یا اس دھندے ہی کو ترک کر کے کوئی نسبتاً بہتر اور منافع بخش کاروبار اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں کبھی کبھار کسی دُھن کے ایسے پکے سے بھی واسطہ بھی پڑ جاتا ہے جو بھاگ جانے کی بجائے بھاگ جگانے کے عمل میں بری طرح مبتلا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار علی کا شمار ایسے ہی پختہ کاروں میں ہوتا ہے، جو اپنے شعبے میں نام پیدا کرنے کے بعد بھی اپنے ہم عصروں کو، اپنی ہم اثری کے سحر میں مبتلا کرنے پہ مُصر ہوتے ہیں۔اُردو ادیبوں پہ ان کی ایسی گہری نظر ہے کہ انھیں جس کسی پہ بھی اپنی کسی کتاب کے مطالعہ نہ کرنے کا شک ہو جائے ، اسے فلیپ یا دیباچہ نگاری کے بہانے یہ سنہری موقع عطا کرنے سے بھی نہیں چُوکتے۔ انھوں نے ڈاکٹرانور سدید اور ڈاکٹر سلیم اختر کو ایک ہی کتاب کے فلیپ پہ راضی کر لیا۔ اہلِ ادب جانتے ہیں کہ یہ دونوں تو کبھی عید کے چاند پہ متفق نہیں ہوئے تھے، اُن کا تو ادبی چاند بھی اپنا اپنا تھا۔ میرا خیال ہے کہ ایسے ادیب کو فلیپ کی نہیں کلیپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار علی جانتے ہیں کہ مزاح ، لفظوں سے گدگدی کرنے کا فن ہے ۔ یہ شریر سوچ کو تحریر کی رگوں میں خون کی مانند دوڑنے کے قابل بنانے کا عمل ہے۔ یہ لحظوں کی مسکراہٹ اور لہجوں کی سرسراہٹ کو محسوس کرنے اور ان سے محظوظ ہونے کا عمل ہے۔ یہ رنگوں کی آمیزش اور لمحوں کی آویزش سے خوشگوار کیفیات کشید کرنے کی مہارت کا سلیقہ ہے۔اسے اس چیز کا بھی اِدراک ہے کہ جو فنکار چٹکیاں لینے کی شرارت، چٹکیاں بجانے کی طراوت اور چٹکیاں کاٹنے کی شقاوت کے تفاوت سے آگاہ نہیں، وہ محض چٹکیوں میں اڑانے کے ہنر میں یکتا ہوتا چلا جاتا ہے۔جس طرح طنز کو اگر مناسب قسم کے مزاح کا بگھار میسر نہ ہو تووہ تعریض، تعرض، چغلی، الاہمہ، طعنہ،مہنا، تھپڑ، چپیڑ حتیٰ کہ گالی اور دشنام کے ہم رکاب تو ہو جاتی ہے، طنز ہر گز نہیں رہتی۔اسی طرح چٹکیاں لینے میں اگر ذہانت، ذکاوت اور اپنائیت کا ماحول موجود نہ ہو تووہ ہَراست، حِراست، سیاست، خباثت، نجاست، یہاں تک کہ مراثت کے ہم پلہ تو آسانی سے ہو جاتی ہے، فن کاری یا مزاح نگاری کے درجے پہ فائز نہیں ہو پاتی۔ اور اس حقیقت سے تو ہر با شعور آگاہ ہے کہ چٹکیوں میں اڑانا کسی منھ زور حرافہ، کسی منھ پھٹ نقاد، کسی منھ بولے سیاست دان اور کسی منھ زبانی اینکر کا کام تو ہو سکتا ہے ، کسی لطیف قلم کار یا ظریف ہنرمند کا نہیں۔ طنزو مزاح کے دوستو! برا نہ لگے تو ڈاکٹر ذوالفقار علی کے بہانے آپ بھی یہ بات برداشت کر لیجیے، کیونکہ میرا نہایت ذاتی، احتیاطی اورجذباتی قسم کا مؤقف ہے کہ مزاح، مذاق کرنے، مسکا لگانے، پرخچے اڑانے، قہقہہ لگوانے یا لطیفہ سنانے کا عمل بھی ہرگز نہیں، جس شخص نے تحریری مزاح کی وادی میں قدم رکھنے سے قبل غالب، اکبر، پطرس ، شفیق، انشا، یوسفی اور انور مسعود کو لفظ بہ لفظ اور نفس بہ نفس پڑھا ، سمجھا، کریدا اور وجدان کا حصہ نہ بنایا ہو نیز ان احباب کے اِرشاداتِ عالیہ کی چھاؤں سے الگ گاؤں بسانے کا پختہ ارادہ نہ کیا ہو،وہ شوقیہ فنکار، زمانہ ساز حتیٰ کہ معروف مصنف تو ہو سکتا ہے، مستند مزاح نگار نہیں۔جہاں یہ بات سچ ہے کہ ادب ہو یا موسیقی، مصوری ہو یا رقص، کلاسیکیت کا دودھ پیے بغیر کوئی فن پا رہ معتبر قرار نہیں پا سکتا۔ وہاں یہ امر بھی بے حد اہم ہے کہ ایک خاص وقت کے بعد اس کا دودھ چھڑوا کے اسے جدیدیت کی غذاؤں کے ذائقے سے آشنا کرنا بھی نہایت ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میںنئے مزاح نگاروں کو یہ مشکل راستہ سجھانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر وہ ان سب پھولوں کا رس چوس کے اپنی طرز کا شہد بنانے میں کامران ٹھہرے تو سبحان اللہ ! ادب کو ایک شان دار مزاح نگار میسر آ جائے گا ۔ نہیں تو ’معروف ادیب اور شہرۂ آفاق ڈراما نگار‘ توکہیں نہیں گیا۔وہ شہرت کی بلندیوں پہ بیٹھ کے ان سب پھولوں کی گل قند تیار کرکے کسی حاذق حکیم یا ستر سالہ سنیاسی باوے جیسی پُڑیاں بنائے اور گلی گلی اور چینل چینل بیچتا پھرے ۔ ممتاز مفتی کہا کرتے تھے کہ مزاح نگار تو کسی کی کھل کے تعریف بھی نہیں کر سکتا۔ تنقید اور بد تعریفی کا اُسلوب اپنانا پڑتا ہے۔ پلّو مار کے دیا بجھانا ہوتا ہے۔اکھ نال گل کرنی ہوتی ہے۔کچھ اور بول کے کچھ اور مراد لینا ہوتا ہے۔ آنکھیں ماتھے پہ رکھنا ہوتی ہیں، دماغ کو دل کی گود میں بٹھانا پڑتا ہے۔ جو مزاح نگار اپنا مذاق اڑانے کا حوصلہ نہیں رکھتا، اسے دوسروں کے اوپر ہنسنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار علی کے بارے میں ہمیں کم از کم اتنا اطمینان ہے کہ وہ مزاح نگاری کی ان جملہ شرائط سے کما حقہٗ آگاہ ہے۔ ’چٹکیاں‘ کے بعد ان کی ’’چُسکیاں‘‘ بھی بے حد مزے دار ہیں۔ کتاب چودہ مضامین، ڈاکٹر خواجہ زکریا اور ڈاکٹر محمد کامران کی توصیف سے مزین ہے۔یہاں بھی وہ اپنے موضوعات کے انتخاب میں نہایت متنوع ہیں، طنزومزاح کے جملہ حربے ان کی جیب میں کھنکھناتے سکّوں کی طرح دھرے رہتے ہیں۔ تشبیہ، تحریف، رعایتِ لفظی کے امتزاج اور ہیر پھیر کے ساتھ ان کی تحریروں کی مرغوب غذائیں ہیں۔ وہ ’بابیالوجی‘، ’حشرات العروض‘، ’ننگِ بنیاد‘ جیسی اختراعی تراکیب کے لُغوی اور لَغوی معنوں سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ چند مثالیں: عام لوگ اِستراحت فرماتے ہیں، جبکہ نائی اُستراحت فرماتا ہے، وہ بال کاٹنے کے ساتھ بات کاٹنے اور ’حمام زدگی‘ کا بھی ماہر ہوتا ہے/انگریزی میں براؤن نام کے بہت سے شاعر ملتے ہیں، ہمارے ہاں صرف ڈارک براؤن پائے جاتے ہیں/ لوٹا اسمبلی میں محفوظ اور مسجد میں غیر محفوظ ہوتا ہے/ صحافی کے قلم کی سیاہی تو سُوکھ جاتی ہے، سیاہ کاری نہیں/ ہمارا پورا معاشرہ ’زوالوجی‘ کا شکار ہے/ ہمارے سیاست دان ایک پلیٹ پہ اکٹھے ہو سکتے ہیں ایک پلیٹ فارم پر نہیں/ پاکستانی کرنسی دو ہی صورتوں میں اوپر جاتی ہے، ٹاس کرتے ہوئے یا ویلیں کراتے ہوئے!! ٭٭٭٭٭