مکرمی !کئی ماہ سے آٹے کا بحران موجود ہے جو کہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا اور نہ ہی ذمہ داروں کو سزا مل سکی ہے پہلے آٹے کی قلت پیدا کی گئی اور اب 20 کلو آٹے کے تھیلا کی قیمت ایک ہزار روپے تک پہنچ گئی آٹے کی قلت سے لیکر آٹے کی قیمتوں میں اضافہ تک حکومت کی ناقص پالسیاں سامنے آئی ہیں جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں آٹے کا ریٹ بڑھ جانے کی وجہ گندم مافیا ہے جس نے ہر ضلع میں سرکاری افسران کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گندم ذخیرہ کرلی اور سرکاری افسران کسانوں زمینداروں اور گندم فروخت کرنیوالے بیوپاریوں سے گندم باہر نہ نکلوا سکی اس میں کوئی شک نہیں کہ انتظامیہ سیپشل برانچ پولیس اور دوسرے خفیہ اداروں کی رپورٹس پر مختلف مقامات پر ذخیرہ کی گئی گندم کو قبضہ میں لیکر سرکاری گندم کے سنٹرز میں لے کر جاتی رہی ہے اور غلہ منڈیوں میں زیادہ مقدار میں پرائیویٹ گندم فروخت کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذخیرہ اندزوں نے گندم چھپا لی کیونکہ انھیں علم تھا کہ جب حکومت نے گندم خریداروں کا ہدف پورا کرلیا تو بعد میں انھیں پرائیویٹ گندم فروخت کرنے کی اجازت مل جائیگی اور وہ گندم کو زیادہ ریٹ میں فروخت کریں گے غلہ منڈیوں میں جو کا شتکار کسان گندم فروخت کرنے کیلئے لاتے ہیں وہ اپنے گھر کا خرچہ چلانے کیلئے غلہ منڈی کے آڑھیتوں سے ایڈوانس رقم لیتے ہیں تاکہ گھر کی ضرورت پوری کرسکیں۔اگر حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر میں 1900 روپے تک گندم کا ریٹ بڑھانے والوں کو قابو نہ کیا اور فلور ملز کو گندم فراہم نہ کی گئی تو آنیوالے دِنوں میں آٹے کی قیمت مزید بڑھ جائے گی جس کیساتھ نان روٹی کی قیمت میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ اوپن مارکیٹ میں فلور ملز والے اور آٹا فروخت کرنیوالے دوکاندروں نے اپنی مرضی کے مقرر کئے ہوئے ہیں گندم مافیا ذخیرہ اندوزوں نے اپنی گندم سرکاری ریٹ 1400 روپے کی بجائے 1900 روپے تک فروخت کر رہے ہیں اب وہ آئندہ سال بھی منافع کمانے کیلئے گندم ذخیرہ کرسکتے ہیں اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ گندم ذخیرہ کرنیوالوںکے خلاف ٹھوس منصوبہ بندی کرے تاکہ آئندہ سال گندم کا ریٹ 1900 روپے تک نہ بڑھ سکے۔ (پرنس عنایت خان ساہیوال)