کراچی میں مقیم میرے صاحبزادے انجینئر طاہر محمود دھریجہ اور بہو نیلوفر خان پر پچھلے دنوں ڈینگی وائرس کا شدید حملہ ہوا۔ فوری طور پر کراچی جانا ہوا، پرائیویٹ ہسپتال پہنچے جہاں بیٹا اور بہو زیر علاج تھے، یہ دیکھ کر پریشانی مزید بڑھ گئی کہ مریضوں میں اکثریت ڈینگی والوں کی تھی، یہ جان کر مزید پریشان ہوا کہ کراچی کے ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ڈاکٹروں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ڈینگی ایک دن میں تیار نہیں ہوتا پچھلے سال اس نے انڈے دیئے افزائش ہوئی، اس کا عذاب آج بھگت رہے ہیں، اگر گزشتہ سال سپرے کرکے ڈینگی کو افزائش سے پہلے مار دیا جاتا تو اتنا نقصان نہ ہوتا، ڈاکٹر راشد نسیم جن کا ڈینگی کے حوالے سے ایک نام ہے بتا رہے تھے کہ ڈینگی وائرس نے موذی مرض کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ڈینگی کے خاتمے کیلئے صوبائی اور مرکزی حکومت کو ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ انسداد ڈینگی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں 24 گھنٹوں میں دو سو کے لگ بھگ جبکہ دیہی علاقوں میں سینکڑوں افراد ڈینگی وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ماہ نومبر میں 20 روز میں 4000 افراد ڈینگی حملے کا شکار ہو گئے، اندرون سندھ دیگر اضلاع میں صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ میں اُن دوستوں کا بہت شکر گزار ہوں جو عیادت کیلئے ہسپتال تشریف لائے اور فون کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ہمیں اپنی دعائوں میں یاد رکھا، میں خاص طور پر ان نوجوانوں کا ممنون و احسان مند رہوں گا جنہوں نے اس مشکل وقت میں خون کا عطیہ دیا۔کراچی کے جو احباب ملنے آئے اُن میں سرائیکی ادیب، شاعر و دانشوروں کے ساتھ ساتھ صحافیوں اور سیاسی ورکروں کی کثیر تعداد موجود تھی، اس موقع پر ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال کے بارے میں بھی گفتگو ہوتی رہی، کراچی کے حالات گفتگو کا محور رہے، میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھ گورنمنٹ کیلئے اس لیے توجہ کا باعث ہے کہ بہت سے کارکنوں کی زبانی میں نے یہ الفاظ سنے کہ کراچی میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل بڑھ چکے ہیں، صفائی کی صورتحال ابتر ہے، محکموں میں کرپشن کا راج ہے، حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے، اس لیے کراچی وفاق کے پاس چلا جائے تو بہتر ہے، گفتگو کرنے والے کارکنوں میں سے کسی ایک کا بھی ایم کیو ایم سے تعلق نہ تھا، یہ کارکن دیگر جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے، پیپلز پارٹی کو اگر کراچی کو سندھ کے ساتھ رکھنا ہے تو پھر کراچی کے حالات پر توجہ دینا ہو گی کہ اندرون سندھ میں تو شاید بھٹو کی قبر پیپلز پارٹی کو فائد دے سکے لیکن کراچی میں صورتحال مختلف ہے۔ سیاسی کارکنوں سے مقالمے میں چیئرمین نیب جناب جاوید اقبال کی یہ بات بھی گفتگو کا محور رہی کہ ’’ہوائوں کا رخ بدل رہا ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ حکمران جماعت بری ذمہ ہے، دوسرے محاذ کی طرف جا رہے ہیں، یک طرفہ احتساب کا تاثر دور کر دیں گے‘‘ چیئرمین نیب کی اس بات پر سیاسی کارکنوں کا موقف یہ ہے کہ ہوائوں کا رخ اب کیوں بدل رہا ہے؟ احتساب کے ادارے نے پہلے دن سے سب کا احتساب کیوں نہیں کیا؟ بذات خود یہ بات قابل احتساب ہے کہ اب دوسرے محاذ کی طرف جا رہے ہیں، نیب کے قانون میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا کہ آپ جسے مرضی آئے پکڑ لیں اور جسے مرضی آئے چھوڑ دیں۔ سیاسی کارکنوں نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ تمام معاملات میں اصول طے ہونے چاہئیں، تمام اداروں کو اُن اصولوں کے اندر رہ کر کام کرنا ہو گا، میں نے اس موقع پر سرائیکی کی یہ کہاوت سنائی کہ ’’کاوڑ تے قانون ایجھی بلا ہے ڈاڈھے تے چڑھدی کینی تے ہینے توں لہندی کینی‘‘ اس کا اردو میں مفہوم یہ ہے کہ غصہ اور قانون ایسی بلا ہے جو طاقتور پر آتا نہیں اور کمزور پر سے اترتا نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان پر بھی گفتگو ہوئی کہ عمران خان کا یہ کہنا کہ عدلیہ اس تاثر کو ختم کرے کہ غریب کیلئے انصاف الگ اور امیر کیلئے انصاف الگ ہے، دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ٹی وی حملہ کیس میں عدالت کو سرکاری وکیل نے یہ بیان دیا کہ عمران خان کو بری کرنے پر اعتراض نہیں، آج جبکہ عمران خان حکومت کے سربراہ ہیں تو گویا سرکاری وکیل نہیں، عمران خان خود کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو بری کرنے پر اعتراض نہیں، جبکہ اسی طرح کے کیس میں نوازشریف اور اُن کے ساتھیوں کو سزائیں ہوئی تھیں۔ عدالت کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی یہ تاثر ختم کرنا چاہئے کہ حکومتی نمائندوں اور عام آدمی کیلئے قانون الگ الگ ہے۔ کراچی میں وسیب سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے، ایک اندازے کے مطابق پچاس لاکھ کے لگ بھگ لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی گئے ہوئے ہیں، ہسپتال میں جتنے بھی لوگ ملنے کیلئے آئے، سب کی زبان پر پہلا سوال یہ تھا کہ ہمارا صوبہ کب بن رہا ہے؟ ہمیں اپنے گھر پر روزگار کب ملے گا؟ ہماری آس امید اور تمنا کب پوری ہو گی؟ میں نے کہا کہ یہ سوال اُن لوگوں سے پوچھیں جنہوں نے صوبے کے نام پر ووٹ لیے، میں بہت افسردا ہوں کہ ہسپتالوں میں سب دکھی آتے ہیں، میں اپنے اُن دوستوں کیلئے فیض احمد فیض کی نظم کے چند اشعار نذر کرتا ہوں ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے جو لوح ازل میں لکھا ہے جب ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اُڑ جائیں گے ہم محکوموں کے پائوں تلے یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑ کے گی اور اہل حکم کے سر اوپر جب بجلی کڑکڑ کڑکے گی جب ارض خدا کے کعبے سے سب بُت اُٹھوائے جائیں گے ہم اہل سفا مردودِ حرم مسند پہ بٹھائے جائیں گے سب تاج اچھالے جائیں گے سب تخت گرائے جائیں گے بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی جو ناظر بھی ہے منظر بھی اٹھے گا انا الحق کا نعرہ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو اور راج کرے گی خلق خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے